پاکستان کو سال 2011ء میں غیر معمولی حالات کا سامنا رہا جس کی وجہ سے ملک کی پارلیمان عوامی مسائل کے حل پر مناسب توجہ نہیں دے سکی۔
یہ جائزہ پاکستان میں جمہوریت اور آزاد انتخابات کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل 42 غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد ’فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک‘ یا فافِن نے چوتھے پارلیمانی سال کے اختتام پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارکردگی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں پیش کیا ہے۔
منگل کو جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال جہاں اسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن اور مہمند ایجنسی میں سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے مہلک حملے جیسے واقعات پیش آئے وہیں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت انتظامی و سیاسی مسائل سے بھی دوچار رہی۔
اس صورت حال میں رپورٹ کے مطابق اراکین پارلیمان کی توجہ قومی سلامتی کے اُمور اور سیاسی مسائل پر مرکوز رہی، جس کے باعث کمزور طرز حکمرانی، بدعنوانی، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے اہم عوامی مسائل پارلیمان کی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔
فافِن کے منیجر ایڈووکسی داؤد ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب غیر معمولی حالات سامنے ہوں تو پھر پارلیمان میں زیادہ بحث اُن پر کی جاتی ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ گزشتہ پارلیمانی سال میں بھی اس ہی صورت حال کا سامنا رہا۔
’’جو بڑے معاملات ہیں جیسے توانائی اُن پر وقفے وقفے سے نقطہ اعتراض یا تحریک التوا کی بنیاد پر بحث تو ہوتی رہی لیکن یہ اس انداز میں نہیں تھی کہ کوئی پالیسی اقدام کر لیا جائے۔‘‘
فافِن کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کی نمایاں تعداد کی قانون سازی کے عمل میں دلچسپی کم رہی جب کہ 61 اراکین نے کسی قسم کی پارلیمانی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ ان میں اکثریت کا تعلق حکمران پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں سے بتایا گیا ہے۔
رپورٹ میں اس امر کو جمہوریت کے لیے خوش آئند قرار دیا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے 100 میں سے 82 اجلاسوں میں شرکت کی۔
تنظیم کے مطابق چوتھے پارلیمانی سال کا ایک دوسرا خوش آئند پہلو یہ بھی ہے کہ اس عرصے میں خواتین کے حقوق سے متعلق اہم قوانین کی منظوری دی گئی جب کہ بعض معاملات پر مختلف الخیال جماعتوں کے اراکین نے مل کر کام کیا جو ملک میں فروغ پاتی جمہوری اقدار کے استحکام کی نشان دہی کرتا ہے۔