القاعدہ تنظیم کے سربراہ اُسامہ بن لادن کا کئی سالوں تک پاکستان کے فوجی چھاؤنی والے شہر ایبٹ آباد میں مخصوص انداز میں تعمیر کیے گئے ایک وسیع و عریض گھر میں روپوش رہنا اور پھر 2مئی کو رات کے اندھیرے میں امریکی کمانڈو فورس کے خفیہ آپریشن میں امریکہ کو مطلوب ترین اس شخص کو ہلاک کرنے کے واقعہ کے بعد ملک کی سیاسی و فوجی قیادت تنقید کے ایک سونامی میں گھری ہوئی لگتی ہے۔
پاکستان میں سیاسی حکومتوں کے بدعنوانی کے قصے تو زبان زد عا م رہے ہیں لیکن ناقدین کے بقول سیاسی جماعتوں کی ساکھ کو بہتر کرنے کے عہدو پیمان کرنے والا مرکز اور صوبوں میں موجودہ حکمران طبقہ بھی بظاہر ماضی کی روش سے انحراف کرنے کی خواہش سے عاری دیکھائی دیتا ہے۔
عوامی حلقوں اور میڈیا میں ملک کے سیاسی قائدین کے غیر سنجیدہ رویے کو اجاگرکرتے ہوئے پچھلے چند روز کے دوران تسلسل سے اس امر پر تعجب کا اظہار کیا جارہا ہے کہ جس شب ایبٹ آباد میں امریکی فورسز بن لادن کے خلاف خفیہ آپریشن میں مصروف تھیں عین اُس وقت حکمران پیپلز پارٹی کے ارکان ایوان صدر میں اپنی پارٹی کی قیادت کی طرف سے ”قاتل لیگ“ قرار دی جانے والی مسلم لیگ ( ق) کے رہنماؤں کے ساتھ” بغل گیر ہو کر“ ایک نئے سیاسی اتحاد کی مبارک بادیں وصول کررہے تھے۔
مزید برآں جب پاکستانی عوام بے چینی سے سیاسی رہنماؤں کی طرف سے ایبٹ آباد کے واقعہ کی وضاحت کے منتظر تھے تو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی فرانس کے سرکاری دور ے پر چلے گئے اور اُن کی وطن واپسی کے ایک روز بعد صدر زرداری کویت کی” یاترا“ کے لیے روانہ ہوگئے۔
سیاسی قائدین کے اس ”انداز ِ بے نیازی “ سے قطع نظر نظم ضبط کا پابند، قابل احترام اور ملک میں ہرلحاظ سے زور آورسمجھا جانے والا پاکستانی فوج کا ادارہ بھی تنقیدکے ایک سونامی میں گھر ا ہوا دیکھائی دے رہا ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا اور غیر ملکی رہنماؤں کی طرف سے پاکستانی فوج پر تنقید کوئی نئی بات نہیں۔
لیکن ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دانشوروں ، کاروباری حلقوں،میڈیا اور حتیٰ کہ عام شہریوں کی طر ف سے تسلسل کے ساتھ اور واشگاف الفاظ میں” قومی سلامتی کے ضامن“ فوج کے ادارے خصوصاََ اس کے ماتحت کام کرنے والی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے”بلا امتیاز احتساب “ کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔
ان مطالبات کی بنیاد پاکستانی فوج کی قیادت کا اعتراف کرنا ہے کہ وہ ایبٹ آباد میں فوج کی مرکزی تربیت گاہ’کاکول ملٹری اکیڈمی‘ سے چند سو گز کے فاصلے پر ایک وسیع و عریض احاطے میں اُسامہ بن لادن کی موجودگی سے لاعلم تھی اور اُسے امریکی خفیہ فوجی آپریشن کی بھی خبر نہ ہوئی۔
پاکستان میں اس وقت یہ مطالبہ زور پکڑ چکا ہے کہ ’’قومی سلامتی داؤ پر لگانے والے‘‘ ملک کے سیاسی اور فوجی قائدین فی الفور اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں اورایک غیر جانبدار کمیشن اس پورے واقعہ کی شفاف اور بلاتعصب تحقیقات کر کے دیگر ذمہ داران کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لانے کا انتظام کریں۔ ا س کے علاوہ پارلیمان کو بااختیار بنا کر خارجہ پالیسی کو فوج کے مبینہ قبضے سے نکال کر براہ راست سیاسی حکومت کے کنٹرول میں دے دیا جائے تاکہ مستقبل میں اگر دوبارہ ایسی ’’کوتاہی‘‘ ہو تو عوام اپنے حکمرانوں کا احتساب کرسکیں۔ یہ مطالبات کرنے والوں میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان اور حکمران پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سرفہرست ہیں۔
موجودہ پارلیمان میں مخلوط حکومت میں شامل جماعتو ں اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین سیاسی و فوجی قیادت کو ایسے حالات میں ”جوابدہ ہونے “ اور سکیورٹی سے متعلق اداروں کو قومی سلامتی کے امور پر توجہ دینے کا پابند بنانے کے مطالبے پر متفق دیکھائی دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ کہتے ہیں۔ ”یہ کوتاہی تو ضرور ہے کہ ہماری ایجنسیاں (اُسامہ بن لادن کے ٹھکانے ) کا پتہ لگانے میں ناکام ہوئیں۔ ایجنسیوں کو اپنا اصل جو کام ہے اُس پرفوکس(توجہ) کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے ہماری نیشنل سکیورٹی ، سرحدوں کا تحفظ ۔ میں سمجھتا ہے ہوں کہ اس پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے اور چونکہ اب یہ کمزوری عیاں ہوگئی ہے تو لوگ مختلف باتیں کررہے ہیں۔“
پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینٹر زاہد خان نے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایبٹ آباد کے واقعہ کو مثال بنا کر پاکستان میں قومی سلامتی کے اداروں اور سیاسی نظام کو با اختیار بنانے کے لیے اصلاحات ہی ملک کو ایک خوشحال مستقبل کی طرف گامزن کرسکتا ہے۔” دیکھیں جی سیدھی سے بات ہے کہ دو مئی کی رات کا جو واقعہ ہے وہ ایک ڈراؤنا خواب ہے ،ایسے حقائق ہیں جس سے ہماری حکومت ہماری سکیورٹی کے ادار ے سکتے میں چلے گئے تھے ۔ 24گھنٹے تو پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ ہوا کیا۔ وزیراعظم ایک بیان دے رہا ہے ، دفتر خارجہ دوسرا بیان دے رہاہے، ہماری سکیورٹی فورسز ایک اور بیان دے رہی ہیں ۔ میر ے خیال میں کمیشن بننا چاہیئے اور جو لوگ اس کہ ذمہ دار ہیں ان دونوں باتوں کے کہ یہ بند ہ کیسے رہ رہا تھا پھروہ لوگ کیسے آگئے ، میر ے خیال میں اُن اداروں کا تعین کرنا ہے جو غفلت کا شکار ہوئے ہیں۔ “
زاہد خان کہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کو اس وقت دنیا میں ایک مجرم کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور دنیا میں ملک کو بدنامی سے بچانے کے لیے جہاں سلامتی کے اداروں کو اپنی ماضی کی پالیسیاں بدلنا ہوں گی وہاں پارلیمان کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔اُن کا کہنا ہے کہ سب کو مل کر تلاش کر نا ہوگا کہ پاکستان میں القاعدہ اور اس کی حامی دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے اور کتنے ملک دشمن چھپے بیٹھے ہیں ۔
” میرے خیال میں اب امریکہ کو ہمیں اتنا موقع دینا چاہیئے کہ موجودہ صور ت حال میں ہمارے اپنے ادارے اور ہم مل کر اپنی پالیسوں پر نظر ثانی کریں اور اس بات کا تعین کریں کہ مستقبل میں کس کا کیا کردار ہو گا۔جب تک پارلیمنٹ یہ فیصلہ نہیں کرے گی کہ کس ادارے کا کیا کردار ہو ، اُس وقت تک ہمارا یہ ہی حشر ہوگا ، کوئی پابندی لگائے گا کوئی ہمیں ذمہ دار ٹھہرا دے گا ، کوئی ہمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال بھی کرے گا۔ “
مبصرین کا کہنا ہے کہ کمیشن بنا کر ایبٹ آبادکے واقعہ کی تحقیقات کے ذمہ داران کو سزا دینے کا معاملہ خاصہ پیچیدہ ہو سکتا ہے کیونکہ دیکھنا یہ ہے کہ ایسی پارلیمان کاتحقیقاتی کمیشن عوامی اعتماد حاصل کر پائے گا جس کے ارکان خود بھی بدعنوانی ، جعلی تعلیمی اسناد کے اسکینڈلوں کا شکار ہیں جب کہ بعض عوامی نمائندوں پر آئی ایس آئی کی حمایت سے پارلیمنٹ کا رکن بننے کے الزامات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ لیکن قومی سلامتی، غربت، معاشی بدحالی اور صحت وتعلیم کی بنیادی سہولتوں کی منتظر پاکستانیوں کی اکثریت کی حالت زار کی بھرپور عکاسی غالب کے اس شعر سے کی جاسکتی ہے۔
کیا کیا خضر نے سکند ر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی