اسلام آباد —
پاکستان میں موسم میں گرمی کی شدت کے ساتھ ساتھ سیاسی ماحول میں بھی خاصی حدت دیکھی جارہی ہے اور آئے روز سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان مختلف شہروں میں جلسے اور ریلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔
اتوار کو بھی ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی میں ایک بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے قائد الطاف حسین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک جلسے کا اہتمام کیا۔
رواں ماہ ایم کیو ایم کی طرف سے لندن میں مقیم اپنے قائد کو پاکستان کی طرف سے قومی شناختی کارڈ جاری کرنے میں مبینہ پس و پیش کے معاملے پر یہ جماعت ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کرتی نظر آئی۔
بعد ازاں حکومتی عہدیداروں کی طرف سے اس معاملے کو قواعدو ضوابط کے مطابق حل کرنے کی یقینی دہانی کے بعد یہ احتجاج ختم ہوگیا۔
متحدہ قومی موومنٹ اپنے کارکنوں کی میبنہ طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں پر بھی سراپا احتجاج ہے۔
کراچی ہی میں بعض مذہبی جماعتیں پاکستانی فوج سے اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئیں جس میں انھوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کی طرف سے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے خلاف ان کے بقول پروپیگنڈہ کرنے اور بعد ازاں ایک مارننگ شو میں متنازع مواد دکھانے پر اس چینل کی مذمت کی۔
ادھر پنجاب کے دوسرے بڑے شہر اور صنعتی مرکز فیصل آباد میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف جلسے کا انعقاد کیا۔
مبصرین پاکستان کی موجودہ صورتحال میں ان جلسوں کو صرف سیاسی ماحول کو گرم رکھنے کا ایک بہانہ قرار دے رہے ہیں جس کا ان کے بقول سردست عوام کو درپیش مسائل سے بلواسطہ یا بلاواسطہ کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔
معروف تجزیہ کار اور پشاور یونیورسٹی میں شعبہ پولیٹیکل سائنس کے سربراہ اے زیڈ ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس پر کچھ یوں ردعمل کا اظہار کیا۔
"توانائی کا مسئلہ ہے، دہشت گردی، بیروزگاری، امن و امان کا مسئلہ ہے، بلوچستان ایک اہم قومی مسئلہ ہے، طالبان کے ساتھ معاملات ایک بڑا پیچیدہ عمل ہے، پھر فاٹا کی سلامتی جو پاکستان کی جغرافیائی سلامتی سے وابستہ ہے یہ وہ ایشوز ہیں جن کر کوئی پارٹی بھی سنجیدہ طریقے سے کسی بھی لیول پر بات نہیں کر رہی۔۔۔ اسی لیے مجھے یہ ایک چائے کے کپ میں طوفان سے زیادہ نظر نہیں آتا۔"
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جہاں جلسے جلوسوں میں سیاسی و دائیں بازو کی جماعتیں خاصی سرگرم ہیں وہاں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے اس میں کسی بھی طرح کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا۔
اے زیڈ ہلالی کے نزدیک یہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں ایک طرح کی سیاسی بلوغت کو ظاہر کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کو بہر حال اصل مسائل کے حل کے لیے حکومت پر جائز دباؤ ضرور ڈالنا چاہیے۔
"ایک اچھی بات تو یہ نظر آتی ہے کہ ہماری سیاسی قوتیں نہیں چاہتیں یا اس مقام پر آگئی ہیں آپس میں ہم آہنگی اور تعاون میں کہ کسی صورت غیر پارلیمانی فورسز یا قوتوں کو پاکستان میں آنے کا موقع نہ دیا جائے، یہ چیز تو ٹھیک ہے لیکن میرا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کو ذمہ دار پارٹی ہونے کا کردار بھی ضرور ادا کرنا چاہیے۔"
پاکستان کو توانائی کے بحران سمیت ملک میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ شدت پسندوں سے مذاکرات کا ڈول تو ڈالا گیا لیکن فی الوقت یہ بیل بھی منڈھے چڑھتے نہیں نظر آتی۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جلسے اور احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہے لیکن ان کے بقول بعض سیاسی جماعتیں بے جا احتجاج کر کے ملک کو معیشت کی پٹڑی پر گامزن کرنے کی حکومتی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کا سبب بننا چاہتی ہیں۔
اتوار کو بھی ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی میں ایک بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے قائد الطاف حسین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک جلسے کا اہتمام کیا۔
رواں ماہ ایم کیو ایم کی طرف سے لندن میں مقیم اپنے قائد کو پاکستان کی طرف سے قومی شناختی کارڈ جاری کرنے میں مبینہ پس و پیش کے معاملے پر یہ جماعت ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کرتی نظر آئی۔
بعد ازاں حکومتی عہدیداروں کی طرف سے اس معاملے کو قواعدو ضوابط کے مطابق حل کرنے کی یقینی دہانی کے بعد یہ احتجاج ختم ہوگیا۔
متحدہ قومی موومنٹ اپنے کارکنوں کی میبنہ طور پر ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں پر بھی سراپا احتجاج ہے۔
کراچی ہی میں بعض مذہبی جماعتیں پاکستانی فوج سے اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئیں جس میں انھوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کی طرف سے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے خلاف ان کے بقول پروپیگنڈہ کرنے اور بعد ازاں ایک مارننگ شو میں متنازع مواد دکھانے پر اس چینل کی مذمت کی۔
ادھر پنجاب کے دوسرے بڑے شہر اور صنعتی مرکز فیصل آباد میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف جلسے کا انعقاد کیا۔
مبصرین پاکستان کی موجودہ صورتحال میں ان جلسوں کو صرف سیاسی ماحول کو گرم رکھنے کا ایک بہانہ قرار دے رہے ہیں جس کا ان کے بقول سردست عوام کو درپیش مسائل سے بلواسطہ یا بلاواسطہ کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔
معروف تجزیہ کار اور پشاور یونیورسٹی میں شعبہ پولیٹیکل سائنس کے سربراہ اے زیڈ ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس پر کچھ یوں ردعمل کا اظہار کیا۔
"توانائی کا مسئلہ ہے، دہشت گردی، بیروزگاری، امن و امان کا مسئلہ ہے، بلوچستان ایک اہم قومی مسئلہ ہے، طالبان کے ساتھ معاملات ایک بڑا پیچیدہ عمل ہے، پھر فاٹا کی سلامتی جو پاکستان کی جغرافیائی سلامتی سے وابستہ ہے یہ وہ ایشوز ہیں جن کر کوئی پارٹی بھی سنجیدہ طریقے سے کسی بھی لیول پر بات نہیں کر رہی۔۔۔ اسی لیے مجھے یہ ایک چائے کے کپ میں طوفان سے زیادہ نظر نہیں آتا۔"
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جہاں جلسے جلوسوں میں سیاسی و دائیں بازو کی جماعتیں خاصی سرگرم ہیں وہاں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے اس میں کسی بھی طرح کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا۔
اے زیڈ ہلالی کے نزدیک یہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں ایک طرح کی سیاسی بلوغت کو ظاہر کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کو بہر حال اصل مسائل کے حل کے لیے حکومت پر جائز دباؤ ضرور ڈالنا چاہیے۔
"ایک اچھی بات تو یہ نظر آتی ہے کہ ہماری سیاسی قوتیں نہیں چاہتیں یا اس مقام پر آگئی ہیں آپس میں ہم آہنگی اور تعاون میں کہ کسی صورت غیر پارلیمانی فورسز یا قوتوں کو پاکستان میں آنے کا موقع نہ دیا جائے، یہ چیز تو ٹھیک ہے لیکن میرا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کو ذمہ دار پارٹی ہونے کا کردار بھی ضرور ادا کرنا چاہیے۔"
پاکستان کو توانائی کے بحران سمیت ملک میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ شدت پسندوں سے مذاکرات کا ڈول تو ڈالا گیا لیکن فی الوقت یہ بیل بھی منڈھے چڑھتے نہیں نظر آتی۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جلسے اور احتجاج ہر کسی کا جمہوری حق ہے لیکن ان کے بقول بعض سیاسی جماعتیں بے جا احتجاج کر کے ملک کو معیشت کی پٹڑی پر گامزن کرنے کی حکومتی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کا سبب بننا چاہتی ہیں۔