پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر آصف علی زرداری کے خطاب سے قبل حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے حزب اختلاف کی جماعتوں خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) سے رابطے کیے ہیں، جب کہ اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ق) کی طرف سے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
پاکستان کے آئین کے تحت صدر کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب کریں اور 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمان سے صدر زرداری کا یہ چوتھا خطاب ہوگا۔
پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس 22 مارچ بروز منگل طلب کیا گیا ہے لیکن پچھلے تین سالوں کے برعکس اس مرتبہ ملک میں مجموعی طور پر سیاسی ماحول کشیدہ ہے اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے صدر زرداری کے خطاب کے موقع پر ایوان میں احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی دھمکی دے رکھی ہے۔
اطلاعات کے مطابق حکمران پیپلز پارٹی کے نمائندوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں خصوصاََ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان اور دیگر رہنماؤں سے رابطے شروع کر رکھے ہیں تاکہ صدر زرداری کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے موقع پر ایوان میں متوقع کشیدگی کو کم کیا جاسکے۔
تاہم اخباری اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے فوری طور پر ا س حوالے سے حکومت کو کوئی یقین دہانی نہیں کرائی ہے اور کہا ہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی میں دوسری بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ق) نے اتوار کو لاہور میں ہونے والے اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں اطلاعات کے مطابق پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
پارٹی قائدین نے اس کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے نجی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور شمالی وزیرستان کے دتہ خیل کے علاقے میں جمعرات کو مبینہ امریکی ڈرون حملے میں شہری ہلاکتوں کی وجہ سے احتجاجاََ مسلم لیگ (ق) کے اراکین صدر زرداری کے خطا ب کا بائیکاٹ کریں گے۔
گذشتہ سال صدر کے خطاب کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی طر ف سے ایوان میں کوئی ہنگامہ آرائی نہ ہونے کی بڑی وجہ حکمران پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے لیے مذاکرات اور آٹھارویں آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرنے کے لیے تمام جماعتوں کے مشترکہ صلاح مشورے تھے۔
لیکن تین سال تک حکومت کی اتحادی رہنے والی جماعت جمعیت علما اسلام فضل الرحمن گروپ کے اراکین بھی اس مرتبہ حزب اختلاف کے بینچوں پرموجود ہوں گے کیونکہ یہ مذہبی جماعت پیپلز پارٹی سے اپنا اتحاد ختم کرچکی ہے۔