رسائی کے لنکس

بینظیر بھٹو کی نویں برسی


پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں چودھری شجاعت حسین نے اعتراف کیا کہ حزب مخالف میں اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ حکومت پر دباؤ کارگر ثابت نہیں ہوا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی مقتول رہنما بے نظیر بھٹو کے قتل کو منگل کے روز نو سال مکمل ہو گئے۔ پارٹی کی جانب سے منگل کو صوبے بھر میں بڑے پیمانے پر برسی منانے کے انتظامات کئے گئے ہیں۔

برسی کے حوالے سے سندھ کے علاقے گڑھی خدا بخش میں بڑے پیمانے پر انتظامات کئے گئے ہیں ۔ گڑھی خدا بخش بھٹو خاندان کا آبائی قبرستان ہے جہاں سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سمیت متعدد رہنما مدفن ہیں۔

برسی میں شرکت کی غرض سے صوبے بھر سے پارٹی رہنماؤں ،وزراء، کارکنوں اور ہمدردوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جبکہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی صبح سے قبل وہاں پہنچ جائے گی جس میں سابق صدر آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور و دیگر قریبی رفقاءشامل ہیں۔

اس سے قبل پیر کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ،سینئر رہنما سید قائم علی شاہ،اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور ایاز سومرو نے بے بظیر کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی و پھولوں کی چادر چڑھائی۔

اس موقع پر سیکورٹی کے بھی سخت انتظامات کئے گئے ہیں ۔ مجموعی طور پر دس ہزار پولیس اہلکارسیکورٹی کے فرائض انجام دیں گے ۔

پارٹی کی جانب سے جاری معلومات میں کہا گیا ہے کہ برسی کی تقریب سے پارٹی سینئر رہنما خطاب بھی کریں گے ۔

حکومت کے خلاف سیاسی اتحاد کی 'کوششیں'

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 2013ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے ہی حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی اور بعد ازاں بدعنوانی کے الزامات کے تحت تنقید اور احتجاج کا سامنا رہا ہے جو کہ ہنوز جاری ہے۔

لیکن نسبتاً کم متحرک رہنے والی حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی رواں سال کے وسط سے حکومت کے خلاف شدت سے سامنے آئی ہے اور آئے روز اس کے راہنماؤں کے تندوتیز بیانات سامنے آتے رہتے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پاناما لیکس کی تحقیقات سے متعلق بل کی منظوری اور کل وقتی وزیرخارجہ مقرر کرنے سمیت چار مطالبات کرتے ہوئے حکومت کو 27 دسمبر تک کی مہلت دے رکھی جس کے بعد ان کے بقول "دما دم مست قلندر ہو گا۔"

گزشتہ ہفتے ہی تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد وطن واپس آنے والے پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ منگل کو پیپلز پارٹی کی آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔

ملکی سیاست میں اہم کردار تصور کیے جانے والے آصف علی زرداری نے حزب مخالف کی مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے بھی کیے ہیں جب کہ ایک روز قبل ان سے مسلم لیگ (ق) کے راہنما چودھری شجاعت حسین نے کراچی میں ملاقات کی جس میں اطلاعات کے مطابق حکومت کے خلاف حزب مخالف کے اتحاد کی تشکیل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پیر کو صحافیوں سے گفتگو میں چودھری شجاعت حسین نے اعتراف کیا کہ حزب مخالف میں اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ حکومت پر دباؤ کارگر ثابت نہیں ہوا۔

"اگر ہم اکٹھے نہ ہوئے ہماری کوتاہی رہی ہم بکھرے رہے ہم ایک دوسرے کے ساتھ مخلص نہ ہوئے تو پھر ٹائم گزر رہا ہے۔"

پیر کو ہی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک بار پھر حکومت اور خصوصاً وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف اپنے حکومتی رفقا کے ہمراہ (فائل فوٹو)
وزیراعظم نواز شریف اپنے حکومتی رفقا کے ہمراہ (فائل فوٹو)

تاہم حکومتی جماعت کے اراکین حزب مخالف کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپوزیشن الزام تراشیوں کی بجائے ان کے بقول ملکی ترقی و خوشحالی میں حکومت کا ساتھ دے۔

مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی طلال چودھری نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کو حزب مخالف کے کسی بھی اتحاد سے خطرہ نہیں کیونکہ ان کے بقول اب تک لگائے جانے والے الزامات میں سے کسی میں بھی کوئی صداقت ثابت نہیں ہوئی۔

"جتنے مرضی اتحاد بنائیں، آخر کار چچا بھتیجا یہ سارے مل کر نواز شریف کے خلاف اکٹھے ہو جائیں گے اور وہ جماعتیں جو پنجاب کے بلدیاتی انتخاب میں ایک بھی ضلع یا شہر نہیں جیت سکیں وہ پاکستان میں وزیراعظم اور صدر بننے کی خواہش کرتی ہیں ووٹ آپ کو دیتا کوئی نہیں۔"

سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں حزب مخالف کے مابین اتحاد مشکل دکھائی دیتا ہے اور ایسی صورت میں حکومت کے لیے کوئی خطرہ فی الوقت دکھائی نہیں دیتا۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت تمام تر مخالف اور احتجاج کے باوجود اسی وجہ سے برقرار رہنے میں کامیاب رہی ہے کیونکہ حزب مخالف میں اتفاق نہ ہو سکا ہے۔

XS
SM
MD
LG