واشنگٹن —
ذرائع ابلاغ کے بڑے پاکستانی اداروں کے درمیان مسابقت کی جنگ اور منافع منڈی کو اپنے بس میں کرنے کا جنون پاکستانی صحافت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
یہ بات پاکستانی نیوز چینل 'جیو' سے منسلک سینئر صحافی اور ٹاک شو میزبان افتخار احمد نے 'وائس آف امریکہ - اردو' کے ہفتہ وار پروگرام 'انڈی پنڈنس ایونیو' میں بات کرتے ہوئے کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی صحافی کو لاحق خطرات کا تعلق اب صرف غیر ریاستی اور مبینہ طور پر ریاستی عناصر سے ہی نہیں ہے، بلکہ اداروں کی باہمی چپقلش اور تربیت کا فقدان بھی پاکستانی صحافت کا رخ تبدیل کر رہا ہے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ آج پاکستان میں صحافت مغربی ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آزاد ہے کیونکہ جو پابندیاں، تربیت اور ڈسپلن ہمیں امریکہ یا دیگر مغربی ملکوں کے صحافتی اداروں کی کارکردگی میں نظر آتا ہے، وہ پاکستان میں یا تو سرے سے موجود نہیں، یا بےحد کمزور ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرکوئی صحافی سوچ سمجھ کر اظہار رائے کا حق استعمال کرتا ہے، یا سیلف سینسر شپ کا مظاہرہ کرتا ہے، تو ضروری نہیں کہ یہ بات ہمیشہ ہی بری ہو، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحافی نے ادارتی ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو کسی ایسی ادارتی غلطی کرنے سے روک لیا، جو اس کی موت کا باعث بن سکتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں کے قتل کے زیادہ تر واقعات کی وجہ ان کا غیر تربیت یافتہ ہونا رہا ہے۔ پاکستان میں نیوز چینلز کی بہتات کی وجہ سے نا تجربہ کار نوجوان میزبان، قومی سلامتی کے اہم ملکی معاملات پر غیر محتاط انداز سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور ایسے خطرات کو دعوت دیتے ہیں جن سے بچا جا سکتا تھا۔
کیپیٹل ٹی وی پر ’بے لاگ‘ کے نام سے سیاسی گفتگو کے پروگرام کی میزبانی کرنے والے صحافی اور کالم نگار اعجاز حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا ادارے جب تک اپنے کاروباری مفادات کو ایک طرف رکھ کر صحافتی آزادیوں اور صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے متحد نہیں ہوتے، اور مل جل کر اپنے صحافیوں کی تربیت کا بہتر انتظام نہیں کرتے، پاکستان میں صحافت کو درپیش خطرات میں کمی نہیں آئے گی۔
پاکستان کے انگریزی روزنامے 'ڈان' کے واشنگٹن میں نمائندے انور اقبال کا کہنا تھا کہ ریڈ لائنز صرف پاکستان میں نہیں، امریکہ میں بھی ہوتی ہیں۔ کسی فرد یا ادارے کے خلاف بغیر ثبوت الزام عائد کرنے اور بہتان طرازی کے خلاف قوانین امریکہ میں بھی موجود ہیں۔
لیکن ان کے بقول پاکستان کی صحافتی صنعت، اپنے عملے کی صحافتی تربیت پر رقم خرچ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی میڈیا ادارے کا وجود خطرے میں نہیں پڑے گا، فوج اور ادارے کے درمیان تمام معاملات پھر سے طے پا جائیں گے، لیکن صحافیوں کو ایک بار پھر کوئی نہیں پوچھے ہوگا۔
یہ بات پاکستانی نیوز چینل 'جیو' سے منسلک سینئر صحافی اور ٹاک شو میزبان افتخار احمد نے 'وائس آف امریکہ - اردو' کے ہفتہ وار پروگرام 'انڈی پنڈنس ایونیو' میں بات کرتے ہوئے کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی صحافی کو لاحق خطرات کا تعلق اب صرف غیر ریاستی اور مبینہ طور پر ریاستی عناصر سے ہی نہیں ہے، بلکہ اداروں کی باہمی چپقلش اور تربیت کا فقدان بھی پاکستانی صحافت کا رخ تبدیل کر رہا ہے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ آج پاکستان میں صحافت مغربی ملکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آزاد ہے کیونکہ جو پابندیاں، تربیت اور ڈسپلن ہمیں امریکہ یا دیگر مغربی ملکوں کے صحافتی اداروں کی کارکردگی میں نظر آتا ہے، وہ پاکستان میں یا تو سرے سے موجود نہیں، یا بےحد کمزور ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرکوئی صحافی سوچ سمجھ کر اظہار رائے کا حق استعمال کرتا ہے، یا سیلف سینسر شپ کا مظاہرہ کرتا ہے، تو ضروری نہیں کہ یہ بات ہمیشہ ہی بری ہو، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحافی نے ادارتی ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو کسی ایسی ادارتی غلطی کرنے سے روک لیا، جو اس کی موت کا باعث بن سکتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں کے قتل کے زیادہ تر واقعات کی وجہ ان کا غیر تربیت یافتہ ہونا رہا ہے۔ پاکستان میں نیوز چینلز کی بہتات کی وجہ سے نا تجربہ کار نوجوان میزبان، قومی سلامتی کے اہم ملکی معاملات پر غیر محتاط انداز سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور ایسے خطرات کو دعوت دیتے ہیں جن سے بچا جا سکتا تھا۔
کیپیٹل ٹی وی پر ’بے لاگ‘ کے نام سے سیاسی گفتگو کے پروگرام کی میزبانی کرنے والے صحافی اور کالم نگار اعجاز حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا ادارے جب تک اپنے کاروباری مفادات کو ایک طرف رکھ کر صحافتی آزادیوں اور صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے متحد نہیں ہوتے، اور مل جل کر اپنے صحافیوں کی تربیت کا بہتر انتظام نہیں کرتے، پاکستان میں صحافت کو درپیش خطرات میں کمی نہیں آئے گی۔
پاکستان کے انگریزی روزنامے 'ڈان' کے واشنگٹن میں نمائندے انور اقبال کا کہنا تھا کہ ریڈ لائنز صرف پاکستان میں نہیں، امریکہ میں بھی ہوتی ہیں۔ کسی فرد یا ادارے کے خلاف بغیر ثبوت الزام عائد کرنے اور بہتان طرازی کے خلاف قوانین امریکہ میں بھی موجود ہیں۔
لیکن ان کے بقول پاکستان کی صحافتی صنعت، اپنے عملے کی صحافتی تربیت پر رقم خرچ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی میڈیا ادارے کا وجود خطرے میں نہیں پڑے گا، فوج اور ادارے کے درمیان تمام معاملات پھر سے طے پا جائیں گے، لیکن صحافیوں کو ایک بار پھر کوئی نہیں پوچھے ہوگا۔