مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے مرتب کے گئے ایک ملک گیر جائزے کے مطابق گزشتہ ایک مہینے کے دوران روز مرہ استعمال کی ضروری اشیاء میں20 سے 75 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب کہ آٹے سمت بعض اشیاء کے نرخوں میں کمی بھی واقع ہوئی ہے لیکن ان کی شرح صرف ایک سے 19 فیصد ہے ۔
اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران جائزے کی تفصیلات بتاتے ہوئے 35 تنظیموں کے نیٹ ورک ’’فافن‘‘ کے عہدیداروں نے بتایا کے وفاقی دارحکومت، چاروں صوبوں اور قبائلی علاقوں میں82مختلف اضلاع سے 69 اشیاء صرف کی خوردہ قیمتوں کو ریکارڈ کیا گیا جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 35 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جن پر قابو پانے کے لیے حکومتی مداخلت کی فوری ضرورت ہے ۔
لیکن دوسری طرف وفاقی ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ فافن نے جس طریقے سے اپنا سروے مرتب کیا ہے وہ ایک بہت محدود پیمانے پر کیا گیا جائزہ ہے اور ان کے مطابق یہ ضروری نہیں کے اس میں سامنے آنے والے نتائج بھی سو فیصد درست ہی ہوں ۔
سروے کے مطابق جون کی نسبت جولائی میں جن چیزوں کی قیمتیں بڑھی ہیں ان کی شرح مختلف علاقوں میں مختلف ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ اضافہ اسلام آباد میں چنے کی دال میں 75 فیصد ہوا ،اسی طرح ٹماٹر کی قیمت میں 35 فیصد ، آلو کی قیمت میں 11 فیصد لہسن کی قیمت میں نو فیصد جب کہ گوشت کی قیمت میں دو سے پاچ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
چینی کی قیمت میں سات جب کہ مختلف دالوں کی قیمت میں بھی ایک سے پانچ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
سروے کے مطابق ضروری استعمال کی جن چیزوں کے نرخ کم ہوئے ان میں سب سے زیادہ واشنگ پاوڈر کی قیمت میں تقریبا 19 فیصد کمی اور سب سے کم نہانے کے صابن میں ایک فیصد سے بھی کم کمی ہوئی۔
آٹے کی قیمت میں ایک فیصد کے قریب کمی ہوئی جب کے سیب، ٹوتھ پیسٹ خشک کھجور، کیلوں، پٹرول انڈوں بیکری کی ڈبل روٹی، پیاز اور دوسری چیزوں کے نرخ بھی مختلف شرح سے کم ہوئے۔
وائس آف امریکا سے انٹرویو میں فافن کے نمائندے سرور باری نے کہا کہ اشیاء کی قیمتوں میں اس تیزی سے اضافہ بہت تشویشناک امر ہے اور انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس اضافے کے رجحان کو نہ روکنا ایک ناقص نظام حکومت کو ظاہر کرتا ہے ۔
لیکن دوسری طرف وفاقی ادارہ شماریات کے ایک عہدیدار عبدالستار اس تنقید کو بلا جواز قرار دیتے ہیں کیوں کہ ان کے مطابق قیمتوں میں عدم استحکام کا گورننس یا نا قص نظام حکومت سے تعلق نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ طلب اور رسد میں پایا جانے والا فرق ہے۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جب اشیاء کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دستیابی اس لحاظ سے نہیں ہوتی تو قیمتوں میں اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آتا ہے۔
فافن کےسروے کے نتائج پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا’’ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئیے کہ کس چیز کی قیمت میں کتنے اضافے سے ایک غریب آدمی پر اثرپڑتا ہے ، مثال کے طور پر اگر کمپیوٹر کی قیمت میں سات فیصد اضافہ ہو جاتا ہے تو ایک غریب آدمی پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا"
سرورباری کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے میں ایسے افراد موجود ہیں جن کا ذرائع پیداوار پر براہ راست کنٹرول ہے اور ان کے مطابق قیمتوں میں اضافے سے ان کا اپنا مفاد وابسطہ ہے۔.
پاکستان میں افراط زر کی شرح 2008 میں 12 فیصد تھی جو 2009 میں 20 فیصد سے بھی تجاوز کر گئی۔ مایرین کا کہنا ہے افراط زر پر قابو پانا حکومت کے لیے ایک کڑا چییلنج ہوگا۔