اسلام آباد —
اسلام مخالف فلم کے مناظر انٹرنیٹ پر جاری کرنے کے خلاف جمعہ کی نماز کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں مذہبی جماعتوں کی قیادت میں احتجاجی جلوس نکالے گئے جو بعد میں پرامن طور پر منتشر ہو گئے تاہم ان میں مظاہرین کی تعداد خلاف توقع کم رہی۔
مظاہرین امریکہ مخالف نعرے لگاتے رہے جبکہ اپنی تقاریر میں قائدین نے حکومت پاکستان سے امریکی سفیر کو طلب کر کے باضابطہ احتجاج اور امریکہ کےساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے مطالبات بھی کیے۔
دارالحکومت کی لال مسجد کے باہر منعقدہ چند سو افراد پر مشتمل احتجاجی مظاہرے کے قائدین میں جمعیت علما اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل بھی شامل تھے۔
اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ حسین احمد نے کہا کہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والے ایسے معاملات کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کی مہم کی سرپرستی کرنی چاہیئے۔
مذہبی جماعتوں کی طرف سے جمعہ کو احتجاجی مظاہروں کے اعلانات کے بعد وفاقی دارالحکومت میں حکام نے پارلیمان، وزارتوں کے دفاتر اور سفارت خانوں پر مشتمل حساس علاقے ریڈ زون کی طرف جانے والے راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی تھی۔
امریکی سفارت خانے کی طرف جانے والی سڑکوں کو خاردار تاریں اور رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم مظاہروں کے اختتام پر شام پانچ بجے تک اضافی رکاوٹوں کو ہٹا دیا گیا اور سڑکوں پر معمول کی ٹریفک بھی بحال ہو گئی۔
پشاور، کراچی اور لاہور میں احتجاجی جلوس بھی پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔
حکومت پاکستان پہلے ہی اسلام مخالف فلم کے انٹرنیٹ پر اجرا کو ایک مکروہ اور نفرت انگیز عمل قرار دے کر اس کی شدید مذمت کر چکی ہے جبکہ ایک روز قبل پارلیمان نے اس کے خلاف متفقہ قرار داد بھی منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اس اقدام سے بین المذاہب ہم آہنگی کی کوششوں دھچکا لگا ہے اور مختلف عقائد کے ماننے والوں کے مابین دشمنی کو ہوا ملی ہے۔
پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی نے انٹرنیٹ کے ذریعے یوٹیوب تک رسائی پر پابندی لگا رکھی ہے تاکہ صارفین توہین رسالت پر مبنی فلم نہ دیکھ سکیں۔
مظاہرین امریکہ مخالف نعرے لگاتے رہے جبکہ اپنی تقاریر میں قائدین نے حکومت پاکستان سے امریکی سفیر کو طلب کر کے باضابطہ احتجاج اور امریکہ کےساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے مطالبات بھی کیے۔
دارالحکومت کی لال مسجد کے باہر منعقدہ چند سو افراد پر مشتمل احتجاجی مظاہرے کے قائدین میں جمعیت علما اسلام کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل بھی شامل تھے۔
اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ حسین احمد نے کہا کہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والے ایسے معاملات کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے کی مہم کی سرپرستی کرنی چاہیئے۔
مذہبی جماعتوں کی طرف سے جمعہ کو احتجاجی مظاہروں کے اعلانات کے بعد وفاقی دارالحکومت میں حکام نے پارلیمان، وزارتوں کے دفاتر اور سفارت خانوں پر مشتمل حساس علاقے ریڈ زون کی طرف جانے والے راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی تھی۔
امریکی سفارت خانے کی طرف جانے والی سڑکوں کو خاردار تاریں اور رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم مظاہروں کے اختتام پر شام پانچ بجے تک اضافی رکاوٹوں کو ہٹا دیا گیا اور سڑکوں پر معمول کی ٹریفک بھی بحال ہو گئی۔
پشاور، کراچی اور لاہور میں احتجاجی جلوس بھی پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔
حکومت پاکستان پہلے ہی اسلام مخالف فلم کے انٹرنیٹ پر اجرا کو ایک مکروہ اور نفرت انگیز عمل قرار دے کر اس کی شدید مذمت کر چکی ہے جبکہ ایک روز قبل پارلیمان نے اس کے خلاف متفقہ قرار داد بھی منظور کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اس اقدام سے بین المذاہب ہم آہنگی کی کوششوں دھچکا لگا ہے اور مختلف عقائد کے ماننے والوں کے مابین دشمنی کو ہوا ملی ہے۔
پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی نے انٹرنیٹ کے ذریعے یوٹیوب تک رسائی پر پابندی لگا رکھی ہے تاکہ صارفین توہین رسالت پر مبنی فلم نہ دیکھ سکیں۔