پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی طرف سے ملک میں موبائل فون صارفین کو ’ایس ایم ایس‘ کے ذریعے پیغامات بھیجے جا رہے ہیں، جس میں اُنھیں متنبہ کیا گیا ہے کہ توہین مذہب سے متعلق مواد کی تشہر قابل سزا جرم ہے۔
یہ ’ایس ایم ایس‘ پیغامات پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ’پی ٹی اے‘ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔
جب کہ ’پی ٹی اے‘ کی ویب سائیٹ پر اردو زبان میں ایک پیغام بھی موجود ہے جس میں عوام الناس سے کہا گیا کہ وہ انٹرنیٹ بالخصوص فیس بک اور سوشل میڈیا پر موجود توہین مذہب سے متعلق مواد تک رسائی بند کرنے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی مدد کریں۔
تاہم انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس طرح عوام کو ’پی ٹی اے‘ کے ذریعے ’ایس ایم ایس‘ بھیجنے سے عدم برداشت کے رویے مزید بڑھیں گے۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’بائٹس فار آل‘ کے فرحان حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کے موبائل فون پیغامات سے اُن کے بقول ’انتہا پسندی کو فروغ ملے گا۔‘‘
پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور قانون کے مطابق اس جرم کی سزا موت ہے تاہم ملک میں ایسے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں ایسے الزامات کا سامنا کرنے والوں کے خلاف کسی قانونی کارروائی سے پہلے ہی انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا۔
حال ہی میں ایسا ایک واقعہ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں پیش آیا جہاں مشتعل افراد نے ایک طالب مشال خان کو توہین مذہب کے الزام پر تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
دریں اثنا ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے ایک روز قبل جاری ہونے والی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ سائبر قانون نے سرکاری عہدیداروں پر تنقید کا دائرہ کار محدود کرنے کا تقاضا کیا اور اس قانون کے تحت حکام کو صحافیوں، سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت تمام شہریوں کی الیکٹرانک ذرائع ابلاغ پر ہونے والی گفت وشنید کی جاسوسی کرنے کا اختیار دیا۔