کوئٹہ —
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں جمعہ کو ایک بم دھماکے میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے۔
اس واقعے میں سکیورٹی اہلکاروں کا قافلہ تو محفوظ رہا لیکن سریاب سے آنے والی ایک مسافر بس بم دھماکے کی زد میں آگئی اور اس میں آگ بھڑک اٹھی۔
بس پر سوار تین افراد بم دھماکے سے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جب کہ باقی آتشزدگی کے باعث جھلس کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
امدادی کارکنوں اور فائر بریگیڈ نے موقع پر پہنچ کر آگ پر قابو پایا اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا۔
دھماکے سے کم ازکم 37 افراد زخمی ہوئے جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔
بم دھماکے سے قرب و جوار کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے جب کہ سڑک پر موجود متعدد گاڑیوں اور رکشوں کو بھی نقصان پہنچا۔
فوری طور پر کسی فرد یا گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن ماضی میں حکام ایسی پرتشدد کارروائیوں کا الزام کالعدم عسکری تنظیموں پر عائد کرتے رہے ہیں۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے صوبے اور خصوصاً مرکزی شہر کوئٹہ میں امن و امان بحال کرنے کے لیے وہ ناراض بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مذاکرات کرے گی اور وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ اس ضمن میں کوششیں بھی کر چکے ہیں۔ لیکن تاحال اس میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ قدرتی وسائل سے تو مالا مال ہے لیکن سب سے کم آبادی ہونے کے باوجود یہ پسماندہ ترین صوبہ ہے۔
بلوچستان میں مختلف کالعدم عسکریت پسند تنظیمیں صوبے کے وسائل میں زیادہ حصے اور زیادہ خودمختاری کے لیے مسلح کارروائیاں کرتی آرہی ہیں جس میں خصوصاً سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
اس واقعے میں سکیورٹی اہلکاروں کا قافلہ تو محفوظ رہا لیکن سریاب سے آنے والی ایک مسافر بس بم دھماکے کی زد میں آگئی اور اس میں آگ بھڑک اٹھی۔
بس پر سوار تین افراد بم دھماکے سے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جب کہ باقی آتشزدگی کے باعث جھلس کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
امدادی کارکنوں اور فائر بریگیڈ نے موقع پر پہنچ کر آگ پر قابو پایا اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا۔
دھماکے سے کم ازکم 37 افراد زخمی ہوئے جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔
بم دھماکے سے قرب و جوار کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے جب کہ سڑک پر موجود متعدد گاڑیوں اور رکشوں کو بھی نقصان پہنچا۔
فوری طور پر کسی فرد یا گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن ماضی میں حکام ایسی پرتشدد کارروائیوں کا الزام کالعدم عسکری تنظیموں پر عائد کرتے رہے ہیں۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے صوبے اور خصوصاً مرکزی شہر کوئٹہ میں امن و امان بحال کرنے کے لیے وہ ناراض بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مذاکرات کرے گی اور وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ اس ضمن میں کوششیں بھی کر چکے ہیں۔ لیکن تاحال اس میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ قدرتی وسائل سے تو مالا مال ہے لیکن سب سے کم آبادی ہونے کے باوجود یہ پسماندہ ترین صوبہ ہے۔
بلوچستان میں مختلف کالعدم عسکریت پسند تنظیمیں صوبے کے وسائل میں زیادہ حصے اور زیادہ خودمختاری کے لیے مسلح کارروائیاں کرتی آرہی ہیں جس میں خصوصاً سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔