اسلام آباد —
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے احکامات میں سانحہ کوئٹہ سے متعلق حکومت کے اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں کوئٹہ میں شعیہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری کے قتل عام میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔
جمعرات کو سانحہ کوئٹہ پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ بظاہر انٹلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہزارہ برادری پر وحشیانہ حملوں میں شامل افراد کو گرفتار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اس لیے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔
گزشتہ ماہ بھی کوئٹہ ہی میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستانی تھے۔
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے حکمران پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آغا ناصر علی نے عدالت کو بتایا کہ ان کی پارلیمان میں بارہا درخواستوں کے باوجود حکومت نے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری کے عوام کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات سے گریز کیا۔
سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی خوف کی وجہ سے نہیں کی جاتی۔
’’کیا شدت پسند پہلی مرتبہ دھمکی دے رہے ہیں؟ کیا بشیر بلور کو شہید نہیں کیا گیا؟ کیا مہران بیس پر حملہ نہیں کیا گیا؟ اگر وہ منظم اور مضبوط نہ ہوتے تو فوج کے ہیڈ کواٹر پر حملہ کیسے کرتے۔ خفیہ اور دیگر اداروں سے درخواست ہے کہ وہ سچ بولیں۔‘‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں ملوث افراد کو اگر گرفتار کیا جائے تو عدالت اعظمیٰ ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی تین دن کے اندر مکمل کرنے کے احکامات بھی جاری کر سکتی ہے۔
انہوں نے عدالتی احکامات میں کہا کہ یہ سول اور ملٹری انٹیلجنس ایجنسیوں کے سربراہان کی ذمہ داری ہے کہ سانحہ کوئٹہ سے متعلق اپنے اداروں میں تحقیقات کریں اور اس بات کا تعین کریں کہ کیسے اور کس نے کوتاہی برتی ہے۔
انہوں نے ہدایت جاری کی کہ سانحہ کوئٹہ سے متعلق خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کی وجوہات اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے حکومت کے اقدامات کی رپورٹس عدالت میں بدھ کو پیش کی جائے۔
حکومت میں شامل مسلم لیگ (ق) کی رکن قومی اسمبلی عطیہ عنایت اللہ کا پارلیمان کے کردار پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ’’پارلیمان نے بہت اچھا کام کیا۔ بلوچستان اور نیشنل سکیورٹی پر قراردادیں متفقہ طور پر منظور کیں، مگر افسوس ہے کہ مقننہ پارلیمان سے وہ رابطہ نہ بنا سکی جس بنا پر وہ ان قرارداوں پر عمل کر سکے۔‘‘
عدالت نے صدر مملکت اور وزیراعظم کو بھی اپنے احکامات ارسال کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی لوگوں کے جان و مال سے متعلق ریاست کی طرف سے لیے گئے اقدامات سے سپریم کورٹ کو آگاہ کرسکتے ہیں۔ سانحہ کوئٹہ سے متعلق کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی۔
جمعرات کو سانحہ کوئٹہ پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ بظاہر انٹلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہزارہ برادری پر وحشیانہ حملوں میں شامل افراد کو گرفتار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اس لیے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔
گزشتہ ماہ بھی کوئٹہ ہی میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستانی تھے۔
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے حکمران پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آغا ناصر علی نے عدالت کو بتایا کہ ان کی پارلیمان میں بارہا درخواستوں کے باوجود حکومت نے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری کے عوام کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات سے گریز کیا۔
سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی خوف کی وجہ سے نہیں کی جاتی۔
’’کیا شدت پسند پہلی مرتبہ دھمکی دے رہے ہیں؟ کیا بشیر بلور کو شہید نہیں کیا گیا؟ کیا مہران بیس پر حملہ نہیں کیا گیا؟ اگر وہ منظم اور مضبوط نہ ہوتے تو فوج کے ہیڈ کواٹر پر حملہ کیسے کرتے۔ خفیہ اور دیگر اداروں سے درخواست ہے کہ وہ سچ بولیں۔‘‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں ملوث افراد کو اگر گرفتار کیا جائے تو عدالت اعظمیٰ ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی تین دن کے اندر مکمل کرنے کے احکامات بھی جاری کر سکتی ہے۔
انہوں نے عدالتی احکامات میں کہا کہ یہ سول اور ملٹری انٹیلجنس ایجنسیوں کے سربراہان کی ذمہ داری ہے کہ سانحہ کوئٹہ سے متعلق اپنے اداروں میں تحقیقات کریں اور اس بات کا تعین کریں کہ کیسے اور کس نے کوتاہی برتی ہے۔
انہوں نے ہدایت جاری کی کہ سانحہ کوئٹہ سے متعلق خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کی وجوہات اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے حکومت کے اقدامات کی رپورٹس عدالت میں بدھ کو پیش کی جائے۔
حکومت میں شامل مسلم لیگ (ق) کی رکن قومی اسمبلی عطیہ عنایت اللہ کا پارلیمان کے کردار پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ’’پارلیمان نے بہت اچھا کام کیا۔ بلوچستان اور نیشنل سکیورٹی پر قراردادیں متفقہ طور پر منظور کیں، مگر افسوس ہے کہ مقننہ پارلیمان سے وہ رابطہ نہ بنا سکی جس بنا پر وہ ان قرارداوں پر عمل کر سکے۔‘‘
عدالت نے صدر مملکت اور وزیراعظم کو بھی اپنے احکامات ارسال کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی لوگوں کے جان و مال سے متعلق ریاست کی طرف سے لیے گئے اقدامات سے سپریم کورٹ کو آگاہ کرسکتے ہیں۔ سانحہ کوئٹہ سے متعلق کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی۔