پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہفتے کی شب سکیورٹی فورسز نے ایک مدرسے پر چھاپہ مار کر وہاں موجود درجنوں افغان باشندوں کو دہشت گردی سے تعلق کے شبہے میں تحویل میں لے لیا ہے۔
سکیورٹی فورسز کے ایک بیان کے مطابق یہ کارروائی کوئٹہ میں بھوسا منڈی کے علاقے میں مدرسہ عبداللہ بن زبیر میں کی گئی اور سرکاری طور پر گرفتار کیے گئے افراد کی تعداد 100 بتائی گئی۔
صوبائی حکام کے مطابق جن افغان باشندوں کو گرفتار کیا گیا اُن کے پاس پاکستان میں قیام کے لیے قانونی دستاویزات نہیں تھیں۔ ان مشتبہ افراد کو کوئٹہ کے مختلف تھانوں میں منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں اُن سے تفتیش جاری ہے۔
حکام کے مطابق مدرسے کو بھی سیل کر دیا گیا ہے۔
تاہم مدرسے یا وہاں سے تحویل لیے گئے مشتبہ افغان باشندوں کے بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کی گئیں ہیں۔
دریں اثنا بلوچستان میں حکام کے مطابق صوبے کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی طور پر مقیم 300 سے زائد افغان شہریوں کو گرفتار کرنے کے بعد اُنھیں ملک بدری کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
افغان حکام کا الزام رہا ہے کہ اُن کے ملک میں دہشت گرد پاکستان میں مبینہ طور پر موجود (کوئٹہ شوریٰ) سے ہدایت لیتے ہیں۔
تاہم پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔
واضح رہے کہ رواں سال مئی میں افغان کے طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو بلوچستان کے ایک علاقے میں سفر کے دوران ڈرون حملہ کر ہلاک کیا گیا تھا۔
پاکستانی حکام کے مطابق ملا اختر منصور جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ پر پاکستان میں داخل ہوا تھا۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل یعنی ہفتے کو صوبہ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا کہ القاعدہ اور داعش سے وابستہ شدت پسندوں کے ایک نیٹ ورک میں شامل چھ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
تاہم سرفراز بگٹی نے نا تو گرفتار کیے گئے مشتبہ افراد کے نام بتائے اور نا ہی اُن کی شہریت سے متعلق تفصیلات فراہم کیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ان شدت پسندوں میں ایک کمانڈر بھی شامل ہے اور اُنھیں ضلع نوشکی سے حراست میں لیا گیا۔
سرفراز بگٹی نے گرفتار کیے گئے چھ مشتبہ شدت پسندوں کے سربراہ کا نام بتائے بغیر کہا کہ وہ لوگوں کو ’داعش‘ میں شمولیت کی ترغیب دیتا تھا۔