ایک معروف بین الاقوامی ادارے کے مطابق گزشتہ سال پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار درآمد کرنے والا دسواں بڑا ملک تھا، جبکہ سعودی عرب ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں سرفہرست اور بھارت دوسرے نمبر پر رہا۔
اپنے مخفف ’سپری‘ کے نام سے معروف سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اعدادوشمار کے مطابق 2015 میں پاکستان نے 73 کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کے ہتھیار درآمد کیے۔ اس کے مقابلے میں بھارت نے تین ارب 70 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے ہتھیار درآمد کیے۔
بھارت نے 2014 میں دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار درآمد کیے جبکہ پاکستان 2014 میں نویں نمبر پر تھا۔
تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی طرف سے اتنی بڑی مقدار میں اسلحہ خریدنے کے باوجود علاقے میں روایتی ہتھیاروں کا توازن اب بھی ہندوستان کے حق میں ہے۔
’’پاکستان کی منطق یہ ہے کہ اگر بھارت کے خلاف اس کا روایتی دفاع کمزور ہوتا ہے یا اس میں تفاوت بڑھتی ہے تو جنگ کی صورت میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے پاکستان بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں میں توازن کو کسی حد تک برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
سپری کے مطابق پاکستان نے سب سے زیادہ یعنی 56 کروڑ 50 لاکھ ڈالر مالیت کے ہتھیار چین سے حاصل کیے جبکہ امریکہ سے چھ کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے ہتھیار حاصل کیے۔چین کی طرف سے سب زیادہ ہتھیار پاکستان ہی کو فروخت کیے گئے جس کے بعد دوسرا نمبر بنگلہ دیش جبکہ تیسرا نمبر میانمار کا ہے۔
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ’’چینی ہتھیاروں (کی دستیابی) کے باوجود پاکستان امریکہ سے ہتھیار اس لیے لیتا ہے کہ جب اعلیٰ ٹیکنالوجی کی بات ہو تو پھر ہتھیاروں کی سپلائی کا بڑا ذریعہ مغرب ہے یعنی امریکہ ہو گا یا یورپی ممالک ہوں گے۔‘‘
پاکستان اور چین لڑاکا طیارے جے ایف تھنڈر 17 کی تیاری کے مشترکہ منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں جنہیں چین اور پاکستان کی فضائی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ دیگر ممالک کو فروخت کرنے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
بھارت نے 2015 میں سب سے زیادہ ہتھیار روس سے حاصل کیے جن کی مالیت لگ بھگ دو ارب ڈالر تھی۔ بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والے ملکوں میں اسرائیل کا نمبر دوسرا جبکہ امریکہ کا تیسرا نمبر تھا۔
عالمی ہتھیاروں کے متعلق سپری کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ چین نے جدید اسلحہ سازی کی صنعت میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور اس کی بڑے ہتھیاروں کی برآمدات میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران دو گنا اضافہ ہوا ہے۔