امریکہ کی طرف سے جوہری تجارت میں ملوث ہونے کے الزام میں سات پاکستانی کمپنیوں پر پابندی پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔
وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق اس پابندی کو جواز کو بنا کر پاکستان مخالف حلقوں کی طرف سے اسلام آباد کی جوہری عدم پھیلاؤ کی کوششوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کو پاکستان مسترد کرتا ہے۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کے دفتر سے پیر اور منگل کی درمیانی شب جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمۂ تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سکیورٹی (بی آئی ایس) کی طرف سے جوہری تجارت میں ملوث ہونے کے الزام پر جن پاکستانی کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ نجی کمپنیاں ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس بارے میں امریکہ اور مذکورہ کمپنیوں سے مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں تاکہ سمجھا جا سکے کہ کس بنیاد پر ان کمپنیوں پر تعزیرات عائد کی گئیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو غیر ضروری سیاسی رنگ دینے والوں کو متنبہ کرتا ہے کیوں کہ اُن کے بقول پاکستان جوہری عدم پھیلاؤ پر یقین رکھتا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پرامن اور جائز مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی یا اشیا تک رسائی پر غیرضروری پابندیاں نہیں ہونی چاہئیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دوہرے مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی اشیا کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی ہمیشہ شفاف رہی ہے اور وہ اس بارے میں سپلائرز اور امریکہ کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی طرف سے جوہری تجارت میں شامل کمپنیوں پر بعض معاملات کی وجہ سے پابندی عائد کرنا اور اُنھیں فہرست سے نکالنے کا عمل جاری رہتا ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ممالک کی کمپنیوں کو بھی بعض مرتبہ فہرست میں شامل کر لیا جاتا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاملے پر پاکستان اور امریکہ کے مابین تعاون تاریخی ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ کو روکنے اور ملک کے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو ہمیشہ سراہا جاتا رہا ہے۔
امریکی بیورو آف انڈسٹری اور سکیورٹی کی طرف سے گزشتہ ہفتے 23 کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں جن میں جنوبی سوڈان کی 15، پاکستان کی سات اور سنگاپور کی ایک کمپنی شامل ہے۔
پاکستان کی سات نجی کمپنیوں پر تعزیرات عائد کیے جانے کے بعد اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس سے پاکستان کی وہ کوششیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں جو وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہے۔
تاہم پاکستانی حکام کی طرف سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ پاکستان 48 رکنی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ہونے کے لیے کوشاں ہے لیکن امریکہ اور بعض مغربی ممالک اس کے حامی نہیں۔
واضح رہے کہ رواں ماہ ہی انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل یوکیا امانو نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے دوران وہ سول جوہری بجلی گھر گئے تھے۔
اپنے دورے کے دوران آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل نے جوہری تنصیبات کے تحفظ کے لیے پاکستان کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو سراہا تھا۔