اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجہ امور سرتاج عزیز نے امید کا اظہار کیا ہے کہ امریکی کانگریس اوباما انتظامیہ کو شام کے خلاف یک طرفہ فوجی کارروائی سے باز رکھتے ہوئے تجویز کرے گی کہ وہ حقائق جاننے کے لیے اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ کا انتظار کریں۔
اتوار کو وائس امریکہ سے خصوصی گفتگو میں شام پر ممکنہ امریکی حملے کی مخالفت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شام پر حملے سے متعلق جلد بازی سے گریز کرنا چاہیے۔
’’جب یو این کے انسپکٹرز وہاں گئے ہیں تو ان کی رپورٹ آجانی چاہیے۔ تو اس حوالے سے اگر امریکہ نے کانگریس کو بھیجا ہے تو ممکن ہے کانگریس بھی کہے کہ رپورٹ کا انتظار کیا جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بشارالاسد کی حکومت کے خلاف کسی بھی کارروائی کے فیصلے کا اختیار صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پاس ہے ناکہ کسی ایک ممبر ملک کے۔
پاکستان کی طرف سے کانگریس سے متعلق اس خواہش کا اظہار امریکی صدر براک اوباما کے شام کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی میں تاخیر کے اعلان کے ایک روز بعد کیا گیا۔
صدر اوباما نے ہفتے کو کہا کہ انہیں اس بات پر یقین ہے کہ کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات پر صدر بشارالاسد کی حکومت کے اہداف کو نشانہ بنانا چاہیے لیکن اس معاملے پر عمل درآمد کانگریس کی منظوری کے بعد ہوگا۔ کانگریس میں اس پر بحث کا آغاز آئندہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں متوقع ہے۔
روس اور کئی دوسرے ممالک بھی امریکہ کے اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہیں۔ تاہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بشارالاسد کے خلاف فوجی کارروائی کے بھرپور حامی ہیں۔
شام دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جنھوں نے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف بین الاقومی کنونشن پر دستظ نہیں کیے اس لیے ماہرین کے مطابق اس کے تحت دمشق کے خلاف کوئی پابندی عائد نہیں ہوسکتی۔
وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ شام اور خطے کی دیگر ریاستوں میں خراب صورتحال سے مسلم ممالک کے اندورنی اختلافات بھی سامنے آرہے ہیں جن پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔
’’ہر ایک کے اپنے اپنے تعلقات ہیں کہیں ان کی بنیاد فرقہ بندی پر تو کہیں نظریاتی یا سیاسی ہے۔ اس کے لیے ایک فارمولا تو ہے نہیں۔ ظاہر ہے اعلیٰ سطح پر روابط ہوں یعنی او آئی سی کی سطح پر یا نان ایلائیڈ موومنٹ کی سطح پر ان پر زور دینا چاہیے کہ اپنے اختلافات دور کیے جائیں۔ اس سے پوری اسلامی دنیا کو خطرہ ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے شام کے خلاف ممکنہ یک طرفہ کارروائی اقوام متحدہ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی اور جس سے خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا۔
قائداعظم یورنیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ فار ڈیفنس اور اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سابق چیئرمین سید رفعت حسین کہتے ہیں۔
’’عراق کا جو حشر ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ مصر کی حالت بھی مخدوش ہے اور اب اگر شام کو کمزور کردیتے ہیں اور وہاں کی حکومت کو ہٹا دیتے ہیں تو وہ قوتیں جو ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں ان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوگا۔ القاعدہ اس سے مضبوط ہوگا اور یہ خدشہ ہے کہ یہ خطہ فرقہ واریت اور تنازعات کے حصار میں آجائے گا۔
علاوہ ازیں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے یک طرفہ کارروائی کی صورت میں بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ کی ساکھ کمزور ہوگی جو کہ دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے۔
اتوار کو وائس امریکہ سے خصوصی گفتگو میں شام پر ممکنہ امریکی حملے کی مخالفت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شام پر حملے سے متعلق جلد بازی سے گریز کرنا چاہیے۔
’’جب یو این کے انسپکٹرز وہاں گئے ہیں تو ان کی رپورٹ آجانی چاہیے۔ تو اس حوالے سے اگر امریکہ نے کانگریس کو بھیجا ہے تو ممکن ہے کانگریس بھی کہے کہ رپورٹ کا انتظار کیا جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بشارالاسد کی حکومت کے خلاف کسی بھی کارروائی کے فیصلے کا اختیار صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پاس ہے ناکہ کسی ایک ممبر ملک کے۔
پاکستان کی طرف سے کانگریس سے متعلق اس خواہش کا اظہار امریکی صدر براک اوباما کے شام کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی میں تاخیر کے اعلان کے ایک روز بعد کیا گیا۔
صدر اوباما نے ہفتے کو کہا کہ انہیں اس بات پر یقین ہے کہ کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات پر صدر بشارالاسد کی حکومت کے اہداف کو نشانہ بنانا چاہیے لیکن اس معاملے پر عمل درآمد کانگریس کی منظوری کے بعد ہوگا۔ کانگریس میں اس پر بحث کا آغاز آئندہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں متوقع ہے۔
روس اور کئی دوسرے ممالک بھی امریکہ کے اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہیں۔ تاہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بشارالاسد کے خلاف فوجی کارروائی کے بھرپور حامی ہیں۔
شام دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جنھوں نے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف بین الاقومی کنونشن پر دستظ نہیں کیے اس لیے ماہرین کے مطابق اس کے تحت دمشق کے خلاف کوئی پابندی عائد نہیں ہوسکتی۔
وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ شام اور خطے کی دیگر ریاستوں میں خراب صورتحال سے مسلم ممالک کے اندورنی اختلافات بھی سامنے آرہے ہیں جن پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔
’’ہر ایک کے اپنے اپنے تعلقات ہیں کہیں ان کی بنیاد فرقہ بندی پر تو کہیں نظریاتی یا سیاسی ہے۔ اس کے لیے ایک فارمولا تو ہے نہیں۔ ظاہر ہے اعلیٰ سطح پر روابط ہوں یعنی او آئی سی کی سطح پر یا نان ایلائیڈ موومنٹ کی سطح پر ان پر زور دینا چاہیے کہ اپنے اختلافات دور کیے جائیں۔ اس سے پوری اسلامی دنیا کو خطرہ ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے شام کے خلاف ممکنہ یک طرفہ کارروائی اقوام متحدہ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی اور جس سے خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا۔
قائداعظم یورنیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ فار ڈیفنس اور اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سابق چیئرمین سید رفعت حسین کہتے ہیں۔
’’عراق کا جو حشر ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ مصر کی حالت بھی مخدوش ہے اور اب اگر شام کو کمزور کردیتے ہیں اور وہاں کی حکومت کو ہٹا دیتے ہیں تو وہ قوتیں جو ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں ان کی کارروائیوں میں اضافہ ہوگا۔ القاعدہ اس سے مضبوط ہوگا اور یہ خدشہ ہے کہ یہ خطہ فرقہ واریت اور تنازعات کے حصار میں آجائے گا۔
علاوہ ازیں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے یک طرفہ کارروائی کی صورت میں بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ کی ساکھ کمزور ہوگی جو کہ دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے۔