پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا اندازہ ماہرین فی الحال لگانے سے قاصر ہیں۔ ان کے نزدیک اس نقصان کی تلافی کے لیے کئی سال اور بہت سے وسائل درکار ہیں۔ یو ایس ایڈ کے اعلیٰ عہدیدار مارک ایس وارڈکے مطابق پاکستان کا انفرا سٹرکچر دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان کا انفرا سٹرکچر دوبارہ تعمیر کرنا ہوگا۔ جس کے لیے دنیا کے آگے آنے کے ساتھ ساتھ خود حکومت ِ پاکستان کو اپنے وسائل استعمال کرنا ہوں گے کیونکہ اس کےلیے بہت پیسہ درکار ہوگا۔
حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرکے واشنگٹن لوٹنے والے جنوبی ایشیائی ماہر معید یوسف کے نزدیک یہ کام اتنا آسان نہیں۔ اس کے لیے وسائل کی دستیابی کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت کی سنجیدگی اور خاطر خواہ اقدامات بھی ضروری ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کو اپنی عوام کو یہ یقین دلانا ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ ایک بہتر اور مثبت طریقے میں ان کی مدد کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔
پاکستان پر ٹوٹنے والی اس آفت کے نتیجے میں بیرونی امداد کا تناسب ٹھیک تھا کہ نہیں۔ اس حوالے سے تقریبا سبھی ماہرین کی یہ رائے ہے کہ عالمی برادری نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی اس طرح مدد نہیں کی جس کی امید کی جا رہی تھی۔
معید یوسف کہتے ہیں کہ باقی دنیا نے اتنا رد ِ عمل نہیں دکھایا جو کہ افسوس ناک تھا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ہیٹی کے زلزلے میں بہت سے لوگ پیسے دے چکے ہیں۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ اتنا ردِ عمل نظر نہیں آیا جو باقی تباہیوں میں نظر آیا ہے۔
یو ایس ایڈ کے مارک ایس وارڈ کے نزدیک یہ درست ہے کہ پاکستانی سیلاب زدگان کے لیے عالمی اداروں نے وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی ان سے توقعات وابستہ تھیں، مگر اس کے برعکس امریکہ اس کڑے وقت میں پاکستانی عوام کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ دو کروڑ لوگ۔ ۔۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جہاں تک ہم نہیں پہنچ سکے۔ ہاں ۔۔۔ اور اس پر ہم شرمندہ ہیں۔ مگر یہ پاکستان میں آنے والی سب سے بڑی تباہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پاکستان میں ہیضہ نہیں پھوٹنے دیا، اور بہت سی اموات ہونے سے بچائی ہیں۔ لوگ اب اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں اور اپنی معمول کی زندگیوں کی طرف واپس آ رہے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک یو ایس آئی پی سے وابستہ معید یوسف نے مصیبت کی اس گھڑی میں امریکہ کی جانب سے پاکستانی عوام کی مدد کو سراہا۔
ان کا کہناہے کہ امریکہ نے تو اس دفعہ کافی امداد دی ہے۔ زلزلے سے بھی بہت زیادہ، اور میرے نزدیک اس کی تعریف کی جانی چاہیئے ۔
مگر اب جبکہ سیلاب سے آنے والی تباہی کے بعد عوام اپنے اپنے علاقوں کی جانب واپس لوٹ رہے ہیں۔ اگلا مرحلہ ان کے گھروں کی تعمیر اور ان کو روزگار کی فراہمی ہوگی، جو کہ سر ِ دست اتنا آسان نہیں ۔
امریکہ میں موجود ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد اور علاقوں کی بحالی کے لیےعالمی امداد کے علاوہ پاکستان کو اپنے وسائل بھی برؤئے کار لانا ہوں گے۔ مگر اس سے بھی زیادہ ضروری پاکستانی حکومت کے لیے اپنی ساکھ کی بحالی ہے۔