رسائی کے لنکس

ازبکستان سے براستہ افغانستان تجارت کا آغاز، پاکستان کے لیے کتنا اہم؟


پاکستان کی ازبکستان کے ساتھ افغانستان کے راستے دو طرفہ تجارت شروع ہو گئی ہے اور اس سلسلے میں ازبکستان سے آنے والے ٹرکوں کا پہلا قافلہ پاکستان پہنچ گیا ہے۔

ازبکستان سے پاکستان پہنچنے والی پہلی کھیپ میں دھاگے سے لدے پانچ مال بردار ٹرک بدھ کو پاکستان پہنچے تھے۔

پاکستان کی حدود میں پہنچنے پر وزیرِ اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف و مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے تجارتی قافلے کا استقبال کیا۔ اس موقع پر ازبکستان اور پاکستان کے فوجی حکام بھی موجود تھے۔

وزیرِ اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے ازبکستان کے ساتھ زمینی راستوں کے ذریعے تجارت کے شروع ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت ازبکستان و دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ علاقائی رابطے مضبوط بنا رہی ہے۔

اُن کے بقول اس سلسلے میں انہوں نے وزیرِاعظم عمران خان کے بیرونی ممالک بالخصوص علاقائی ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے کاوشوں کا ذکر کیا۔

سن 2018 کے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے پہلے طورخم اور بعد میں چمن کے راستوں کو دو طرفہ تجارت کے لیے دن رات کھولنے کے احکامات جاری کیے تھے جس پر اگست 2019 سے عمل ہو رہا ہے۔

طورخم اور چمن کی سرحدی گزرگاہوں کے علاوہ افغانستان کے ساتھ قبائلی ضلع کرم کے خرلاچی۔ شمالی وزیرستان کے غلام خان اور جنوبی وزیرستان کے انگور اڈہ کے راستوں سے بھی تجارت جاری ہے۔

ازبکستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت

اس وقت پاکستان اور ازبکستان کے درمیان دو طرفہ تجارت 25 کروڑ سے 30 کروڑ امریکی ڈالرز سالانہ ہے۔ خیبر پختونخوا کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زاہد اللہ شنواری کا کہنا ہے کہ اس میں مزید اضافے کے بہت سے امکانات ہیں جس کے لیے حکومتی، تجارتی اور صنعتی سطح پر مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے صنعت و حرفت کے نائب چیئرمین ضیا الحق سرحدی کا کہنا ہے کہ اس وقت ازبکستان اور پاکستان کے درمیان فی ٹرک کرایہ تین ہزار امریکی ڈالر سے ساڑھے چار ہزار ڈالر ہے جو ان کے بقول بہت زیادہ ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ اگر اس کرایے میں کمی لائی جائے تو اس سے نہ صرف ازبکستان بلکہ دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ضیا الحق سرحدی کا کہنا تھا کہ ازبکستان سے تجارت بہت خوش آئند ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ دو طرفہ تجارت بالخصوص افغانستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں پر مشکلات کو حل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر کرایے بہت زیادہ ہیں جس پر نظرِثانی کی ضرورت ہے جب کہ دو طرفہ تجارت میں ادائیگیوں کے طریقۂ کار کو بینکوں کے ذریعے آسان بنایا جائے۔

انہوں نے افغانستان کی صورتِ حال کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک کو افغانستان کے راستے تجارت کو مزید آسان بنانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان اور ازبکستان ایک دوسرے کو کیا برآمد کر سکتے ہیں؟

خیبر پختونخوا کے ایوانِ صنعت و تجارت کے سابق صدر زاہد اللہ شنواری کا کہنا تھا کہ ازبکستان سے کاٹن دھاگہ اور پلاسٹک کے دانے کی درآمد جب کہ پاکستان سے ازبکستان تازہ میوہ جات، دوائیاں، دالیں اور ماچس وغیرہ کی برآمدات کے وسیع مواقع موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت (ٹاپی) منصوبے پر عمل نہیں ہوتا تو پھر پاکستان، ازبکستان سے تیل اور گیس کی برآمد پر بھی غور کر سکتا ہے۔

خیال رہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے جولائی 2021 میں ازبکستان کا دورہ کیا تھا جہاں دونوں ممالک نے باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

وزیرِ اعظم عمران خان اور ازبک صدر کی موجودگی میں ہونے والے معاہدے میں طے پایا تھا کہ ازبکستان کو افغانستان کے راستے پاکستانی بندرگاہوں تک رسائی دی جائے گی جس کے بدلے پاکستان کو ازبکستان سمیت دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارت کے مواقع ملیں گے۔

XS
SM
MD
LG