|
اسلام آباد -- پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ 'سی پیک' منصوبے اور سیکیورٹی اہلکار رواں برس دہشت گردوں کا بڑا ہدف رہے۔
رواں برس دہشت گردی کے واقعات سے متعلق وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی جانب سے جمعرات کو قومی اسمبلی میں رپورٹ جمع کرائی گئی ہے جس کے مطابق دہشت گردوں نے فوجی اور قانون نافذ کرنے والے افسران کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی تنصیبات اور اہم انفراسٹرکچر پر بھی حملے کیے۔
رپورٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’دہشت گرد گروپس‘‘ سی پیک کے لیے اہم خطرہ ہیں کیوں کہ چین کی فنڈنگ سے چلنے والے سی پیک منصوبے اور ان پر کام کرنے والے غیر ملکی افراد پر خودکش حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری سے اکتوبر 2024 تک پاکستان بھر میں 1566 دہشت گردی کے واقعات ہوئے جن میں سب سے زیادہ واقعات خیبر پختونخوا میں ہوئے۔ ان میں 63 فی صد یعنی 573 سیکیورٹی فورسز کے ارکان سمیت 924 افراد ہلاک ہوئے۔
دریں اثنا پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے الزام عائد کیا کہ افغانستان کی عبوری طالبان انتظامیہ ان عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے جو پاکستان میں سرحد پار سے پرتشدد حملوں میں ملوث ہیں۔
کابل کی افغان طالبان انتظامیہ نے پاکستان کے دعوؤں پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن وہ ماضی میں پاکستان کے ان دعوؤں کو مسترد کر چکے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی کا رپورٹ میں مزید کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے حال ہی میں اپنے ہدف کے انتخاب کو تبدیل کر دیا ہے۔ اب وہ شہری آبادی کو نشانہ بنانے سے گریز کرتے ہیں۔
خیبرپختونخوا
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ رواں برس خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے 948 واقعات رُونما ہوئے۔
ان واقعات میں 573 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 924 افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ دو ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے واقعات میں رواں برس 135 عام شہریوں کی بھی اموات ہوئیں۔
بلوچستان
وزیرِ داخلہ کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں اس عرصے کے دوران دہشت گردی کے 582 واقعات رپورٹ ہوئے جس میں 307 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ان میں 110 سیکیورٹی اہلکار اور 197 شہری شامل ہیں۔
سندھ اور پنجاب
صوبہ سندھ میں اس عرصے کے دوران 24 دہشت گردی کے واقعات میں 17 اموات اور 38 زخمی ہوئے۔ صوبہ پنجاب میں دہشت گردی کے 10 واقعات میں 16 افراد ہلاک اور 63 زخمی ہوئے۔
وزیرِ داخلہ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے مقابلے میں رواں سال کے پہلے 10 ماہ میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات اور اس کے نتیجے میں اموات ہوئی ہیں۔
سن 2019 میں 482 دہشت گردی کے واقعات میں 380 اموات ہوئی تھیں جن میں 202 قانون نافذ کرنے والے اور 178 عام شہری شامل تھے۔
پاکستان میں بے امنی کی چھ وجوہات
وزیرِ داخلہ نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں امن وامان کی خرابی کی چھ وجوہات بھی بیان کیں۔
وزیرِ داخلہ نے پہلی وجہ بیان کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ افغانستان کی سیکیورٹی صورتِ حال نے مختلف بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کو پنپنے کا موقع دیا۔ جس سے ان کی موجودگی، وسائل اور افغان سرحد سے باہر کارروائی کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔
دوسری وجہ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے درمیان نقل و حرکت میں آسانی ہے۔ رپورٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ طالبان حکومت کے پاس ان علاقوں کا مؤثر کنٹرول نہیں ہے۔
وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ تیسری وجہ ٹی ٹی پی کی دراندازی بھی ہے جو افراد کے چھوٹے گروپس کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے پاکستان بھیجتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ چوتھی وجہ وہ افغان شہری ہیں جو پہلے افغانستان میں مسلح سرگرمیوں میں ملوث تھے اور اب 'ٹی ٹی پی' اور دیگر دہشت گرد گروپس کے ساتھ مل کر پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔
پانچویں وجہ افغانستان سے انخلا کے دوران امریکہ کی جانب سے چھوڑا گیا وہ جدید اسلحہ ہے جو دہشت گرد گروپس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ یہ وہ الزام ہے جس کی امریکی حکام مختلف مواقع پر تردید کرتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت بھی ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ طالبان حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف نہ تو استعمال ہو رہی ہے اور نہ ہی اسے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
پاکستانی وزیرِ داخلہ کے مطابق چھٹی وجہ دہشت گرد گروپس کا سی پیک منصوبوں کے لیے خطرہ بننا ہے جس کا ثبوت ان منصوبوں سے منسلک افراد پر بڑھتے ہوئے حملے ہیں۔
غیر ملکیوں کی سیکیورٹی کے لیے اقدامات
وزیرِ داخلہ نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ غیر ملکیوں پر خود کش حملوں میں اضافے کے بعد متعدد سطحوں پر ایک جامع سیکیورٹی فریم ورک قائم کیا گیا ہے۔
وفاقی سطح پر غیر ملکیوں کے لیے قومی سلامتی سیل قائم کر دیا گیا ہے جب کہ صوبائی اور ضلعی سطح پر بھی غیر ملکیوں کے لیے سیکیورٹی سیل بھی کام کر رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانی شہریوں کی موجودگی سے سیکیورٹی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ سن 2022 سے 2023 تک چھ لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو واپس بھیجا گیا ہے۔
وزیرِ داخلہ محسن نقوی کے مطابق جنوری سے اکتوبر 2024 تک مجموعی طور پر لگ بھگ 13 ہزار انٹیلی جینس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جس کے نتیجے میں 341 دہشت گرد مارے گئے۔ گزشتہ 10 ماہ کے دوران چار دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ ان میں زینبیون بریگیڈ، مجید بریگیڈ اور حافظ گل بہادر گروپ شامل ہیں۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
افغان امور کے ماہر تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کا مؤقف رہا ہے کے پاکستان کے کسی بھی شہر میں دہشت گردی کو روکنا پاکستان کی اپنی ذمے داری ہے۔
طاہر خان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان اور افغانستان کا اپنا اپنا مؤقف ہے اور دونوں فریق کسی حل کی جانب نہیں بڑھ رہے۔
طاہر خان کے بقول پاکستان اور افغانستان کو مل بیٹھ کر ہی غلط فہمیاں دُور کرنا ہوں گی۔
فورم