رسائی کے لنکس

'حکومت اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کروائے'


ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے برسوں پہلے عام انتخابات میں دھاندلی کے لیے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے معاملے پر فضائیہ کے سابق سربراہ اصغر خان کی طرف سے دائر مقدمے کے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے حکومت سے اس ضمن میں ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے۔

2012ء میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے 1990 کی دہائی کے اوائل میں اسلامی جمہوری اتحاد نامی سیاسی اتحاد تشکیل دینے اور حسب منشا انتخابی نتائج کے حصول کے لیے نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کی ذمہ داری بری فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی پر عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔

ان دونوں شخصیات نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں دائر کر رکھی تھیں جنہیں پیر کو عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیا تھا۔

منگل کو فیصلے پر عملدرآمد کے لیے سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی جس کے سامنے اٹارنی جنرل اور وفاقی تفتیشی ادارے 'ایف آئی اے' کے سربراہ پیش ہوئے۔

چیف جسٹس کا اس موقع پر کہنا تھا کہ عدالت فیصلہ دے چکی ہے اور وفاقی حکومت نے اب تک اس پر کوئی کارروائی نہیں کیا۔ اپنے ریمارکس میں انھوں نے کہا کہ انھیں معلوم نہیں کہ یہ آئین کی شق چھ کے تحت مقدمہ بنتا ہے یا نہیں لیکن عدالتی فیصلوں پر من و عن عمل ہونا چاہیے۔

آئین کی شق چھ کے مطابق کوئی بھی شخص جو کسی بھی طریقے سے آئین شکنی کرے یا اس کی کوشش کرے وہ سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین کی شق چھ کے تحت کارروائی کا فیصلہ وفاقی حکومت نے کیا۔ لہذا عدالت اصغر خان کے مقدمے کے فیصلے پر عملدرآمد کا معاملہ بھی حکومت پر چھوڑتی ہے اور اس پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

کارروائی کس طریقے اور کس فورم پر ہو گی اس کے لیے حکومت کو ایک ہفتے کا وقت دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس کے لیے اگر کابینہ کا خصوصی اجلاس بھی بلانا پڑے تو بلایا جائے۔

پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی کے علاوہ کوئی ایسی بڑی مثال نہیں ملتی جس میں کسی سابق آرمی چیف یا فوج کے اعلیٰ عہدیدار کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہو۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینیئر قانون دان کامران مرتضیٰ کے خیال میں اس معاملے پر بظاہر کسی ٹھوس پیش رفت کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "لگتا یہی ہے کہ غصہ جتنا بھی ہے سویلین پر نو نکالا جا سکے گا، کسی یونیفارم فورس کے بندے سے تو میرا خیال ہے نہیں ہو سکتا۔ اس کی مثال مشرف صاحب کی ہے ان کو کسی کرمنل کورٹ میں آج تک نہیں لا پائے۔ مجھے شک ہے کہ اس میں بھی ہم کچھ نہیں کر پائیں گے اور اگر کر پائے تو ایک بڑی کامیابی ہو گی۔"

کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اس وقت جو سیاسی صورتحال ہے اس کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ حالات ویسے ہی ہیں جیسے بیس سال پہلے تھے۔ لہذا ان کے بقول اگر آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو پہلے ہوا تھا تو پھر کم از کم آج کو تو ٹھیک کیا جانا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG