پاکستان میں موسم سرما کی طویل تعطیلات کے بعد پیر کو اسکول دوبارہ کھل گئے اور حکام کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے انتظامات خاصی حد تک بڑھا دیے گئے ہیں۔
گزشتہ ماہ پشاور کے ایک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں 134 بچوں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد سلامتی کے خدشات کے باعث اسکولوں میں موسم سرما کی تعطیلات نا صرف مقررہ وقت سے پہلے کر دی گئیں تھیں بلکہ بعد میں اُن میں توسیع بھی کر دی گئی تھی اور اس دوران تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے انتظامات کو بڑھایا گیا۔
پشاور کا آرمی پبلک اسکول جب دوبارہ کھلا تو فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اپنی اہلیہ کے ہمراہ وہاں طالب علموں اور اُن کے والدین کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
اُنھوں نے اسکول کی اسمبلی میں شرکت کی اور کہا کہ بچے پرعزم ہیں اور اس قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
آرمی پبلک اسکول کے کچھ بچوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ کسی بھی خوف کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلے کو نہیں رکنے دیں گے۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں صبح کی اسمبلی کے بعد طالبعلموں کو چھٹی دے دی گئی۔ توقع ہے کہ باقاعدہ درس و تدریس کا سلسلہ منگل سے شروع ہو سکے گا۔
ادھر ملک کے دیگر حصوں میں بھی تعلیمی سلسلہ پیر کو دوبارہ شروع ہو گیا حکام کے مطابق اسکولوں کی سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے تاہم بچوں کی حاضری پیر کو کم رہی ہے۔
لیکن بعض اسکولوں میں سکیورٹی کے مطلولبہ انتظامات نا ہونے کی وجہ سے اُنھیں کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اسکولوں کی عمارتوں کی بیرونی دیواروں کو بلند کرنے اور مسلح محافظ تعینات کرنے کے علاوہ ایسا انتباہی نظام بھی وضع کیا گیا ہے جس سے کسی بھی ہنگامی صورت میں فوری طور پر قریبی پولیس اسٹیشن میں اس کی اطلاع دی جا سکے گی۔
پشاور اسکول پر ہوئے حملے کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ اب دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا وقت آ چکا ہے۔
فوج نے جہاں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا وہیں سزا پانے والے قیدیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد پر عائد پابندی بھی ختم کر دی گئی۔
اب تک دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت پانے والے دس مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔