اسلام آباد —
کراچی کے جواں سال شاہ زیب خان قتل کیس میں پولیس نے ہفتہ کو نامزد ملزمان میں سے ایک سراج تالپور اور دیگر دو افراد کو اندرون سندھ کےعلاقے مورو سے گرفتار کیا ہے۔
پولیس ذرائع نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ دوسرا نامزد مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی قتل کی واردات کے اگلے ہی روز آسٹریلیا فرار ہو چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق سراج تالپور کا کہنا ہے کہ شاہ زیب کو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ایک رشتے دار نے گولیاں ماری تھیں۔ تاہم اس بارے میں اصل حقائق مزید تفتیش کے بعد سامنے آسکیں گے۔
20 سالہ شاہ زیب کو 25 دسمبر کو کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا اور مقتول کے لواحقین نے شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو ملزم نامزد کیا تھا۔
کئی روز تک اس قتل کے مقدمے پر پیش رفت نہ ہونے، ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس بارے میں سامنے آنے والے احتجاج کے بعد پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے اس واردات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے جمعہ کو سماعت شروع کی تھی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کے دوران سندھ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو متنبہ کیا تھا کہ ملزمان کو 24 گھنٹوں میں گرفتار کیا جائے بصورت دیگر پولیس افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
عدالت نے اس مقدمے کی سماعت پیر تک ملتوی کردی تھی لیکن جمعہ کو ہونے والی عدالتی کارروائی کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے مختلف علاقوں میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ اب تک ملزمان کی جائیدادیں ضبط اور ان کے پاسپورٹ منسوخ ہو جانے چاہیے تھے۔
شاہ زیب کے لواحقین نے شاہ رخ جتوئی کے والد سکندر جتوئی کو بھی ملزم نامزد کیا ہے جو کہ پولیس ذرائع کے مطابق سندھ سے فرار ہوکر پنجاب کے کسی علاقے میں روپوش ہو چکا ہے۔
پولیس نے سکندرجتوئی کی ایک سیمنٹ فیکٹری کو بھی سیل کردیا ہے۔
سراج تالپور اور شاہ رخ جتوئی سندھ کے بااثر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ مرنے والے شاہ زیب کے والد پولیس افسر ہیں۔
پولیس ذرائع نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ دوسرا نامزد مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی قتل کی واردات کے اگلے ہی روز آسٹریلیا فرار ہو چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق سراج تالپور کا کہنا ہے کہ شاہ زیب کو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ایک رشتے دار نے گولیاں ماری تھیں۔ تاہم اس بارے میں اصل حقائق مزید تفتیش کے بعد سامنے آسکیں گے۔
20 سالہ شاہ زیب کو 25 دسمبر کو کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا اور مقتول کے لواحقین نے شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو ملزم نامزد کیا تھا۔
کئی روز تک اس قتل کے مقدمے پر پیش رفت نہ ہونے، ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس بارے میں سامنے آنے والے احتجاج کے بعد پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے اس واردات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے جمعہ کو سماعت شروع کی تھی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کے دوران سندھ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو متنبہ کیا تھا کہ ملزمان کو 24 گھنٹوں میں گرفتار کیا جائے بصورت دیگر پولیس افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
عدالت نے اس مقدمے کی سماعت پیر تک ملتوی کردی تھی لیکن جمعہ کو ہونے والی عدالتی کارروائی کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے مختلف علاقوں میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ اب تک ملزمان کی جائیدادیں ضبط اور ان کے پاسپورٹ منسوخ ہو جانے چاہیے تھے۔
شاہ زیب کے لواحقین نے شاہ رخ جتوئی کے والد سکندر جتوئی کو بھی ملزم نامزد کیا ہے جو کہ پولیس ذرائع کے مطابق سندھ سے فرار ہوکر پنجاب کے کسی علاقے میں روپوش ہو چکا ہے۔
پولیس نے سکندرجتوئی کی ایک سیمنٹ فیکٹری کو بھی سیل کردیا ہے۔
سراج تالپور اور شاہ رخ جتوئی سندھ کے بااثر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ مرنے والے شاہ زیب کے والد پولیس افسر ہیں۔