کراچی میں قتل ہونے والے جواں سال شاہ زیب خان کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو جوڈیشل ریمانڈر پر بچوں کی جیل میں بھیج دیا ہے۔
ہفتہ کو کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور سمیت دیگر ملزمان کو پیش گیا۔
شاہ رخ کے طبی تجزیوں کے مطابق اس کی عمر 17 سے 18 سال سے کے درمیان ہے اس لیے اسے 29 جنوری تک بچوں کی جیل منتقل کرنے کا حکم دیا گیا۔
وکیل استغاثہ عبدالمعروف نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ ’’سرجن نے جو سرٹیفیکیٹ پیش کیا اس میں بچے (شاہ رخ جتوئی) کی عمر 18 سال سے کم ہے اس لیے ہم نے عدالت سے درخواست کی کہ اسے بچوں کی جیل میں بھیجا جائے جو عدالت نے منظور کرلی۔ اب آگے کی کارروائی جوونائیل سسٹم کے تحت ہی ہوگی۔‘‘
سراج تالپور اس کے بھائی سجاد تالپور اور ایک ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری کو عدالت نے کراچی جیل بھیج دیا گیا ہے۔
قبل ازیں پولیس کا کہنا تھا کہ آلہ قتل ایک پستول اور چار گولیاں بھی برآمد کی گئی ہیں۔
شاہ رخ جتوئی کے وکیل نے صحافیوں کو آلہ قتل کی برآمدگی پر کہا کہ اس کی اب کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی۔
’’جو آلہ قتل برآمد ہوا تفتیشی افسر کو یہ آلہ قتل عدالت میں پیش کرنا ہے عدالت اس کی سیل اس کا کپڑا دیکھنے کے بعد پھر یہ حکم نامہ دیتی ہے کہ اسے مال خانے میں جمع کردیا جائے۔ تفتیشی افسر نے آرمز اینڈ آرڈیننس کے سیکشن سات کے تحت اس آلہ قتل کو آج پیش نہیں کیا اس لیے ٹرائل میں اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔‘‘
گزشتہ دسمبر میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں 20 سالہ شاہ زیب خان کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا اور لواحقین نے شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو ملزمان نامزد کیا تھا۔
انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس اور پھر ذرائع ابلاغ میں اس قتل کے خلاف احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو کارروائی کی ہدایت کی تھی۔
ہفتہ کو کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور سمیت دیگر ملزمان کو پیش گیا۔
شاہ رخ کے طبی تجزیوں کے مطابق اس کی عمر 17 سے 18 سال سے کے درمیان ہے اس لیے اسے 29 جنوری تک بچوں کی جیل منتقل کرنے کا حکم دیا گیا۔
وکیل استغاثہ عبدالمعروف نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ ’’سرجن نے جو سرٹیفیکیٹ پیش کیا اس میں بچے (شاہ رخ جتوئی) کی عمر 18 سال سے کم ہے اس لیے ہم نے عدالت سے درخواست کی کہ اسے بچوں کی جیل میں بھیجا جائے جو عدالت نے منظور کرلی۔ اب آگے کی کارروائی جوونائیل سسٹم کے تحت ہی ہوگی۔‘‘
سراج تالپور اس کے بھائی سجاد تالپور اور ایک ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری کو عدالت نے کراچی جیل بھیج دیا گیا ہے۔
قبل ازیں پولیس کا کہنا تھا کہ آلہ قتل ایک پستول اور چار گولیاں بھی برآمد کی گئی ہیں۔
شاہ رخ جتوئی کے وکیل نے صحافیوں کو آلہ قتل کی برآمدگی پر کہا کہ اس کی اب کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی۔
’’جو آلہ قتل برآمد ہوا تفتیشی افسر کو یہ آلہ قتل عدالت میں پیش کرنا ہے عدالت اس کی سیل اس کا کپڑا دیکھنے کے بعد پھر یہ حکم نامہ دیتی ہے کہ اسے مال خانے میں جمع کردیا جائے۔ تفتیشی افسر نے آرمز اینڈ آرڈیننس کے سیکشن سات کے تحت اس آلہ قتل کو آج پیش نہیں کیا اس لیے ٹرائل میں اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔‘‘
گزشتہ دسمبر میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں 20 سالہ شاہ زیب خان کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا اور لواحقین نے شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو ملزمان نامزد کیا تھا۔
انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس اور پھر ذرائع ابلاغ میں اس قتل کے خلاف احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو کارروائی کی ہدایت کی تھی۔