پاکستان میں جمعہ کو سخت حفاظتی انتظامات میں تمام چھوٹے بڑے شہروں میں نویں محرم کے جلوس نکالے گئے اور مجالس کا اہتمام کیا گیا۔
جلوسوں کے مقررہ راستوں کی کڑی نگرانی کی جاتی رہی جب کہ ان کی طرف جانے والے راستوں کو عام ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
مجالس اور جلوس میں شرکت کرنے والوں کو بھی جامہ تلاشی کے بعد ہی آگے جانے دیا جاتا رہا جب کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کی اضافی نفری بھی ان مقامات پر تعینات رہی۔
لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور سمیت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جلوسوں کی فضائی نگرانی کے علاوہ کلوز سرکٹ کیمروں کے ذریعے بھی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی رہی۔
مقامی انتظامیہ نے موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی بھی لگا رکھی ہے جو کہ 11 محرم تک نافذ رہے گی۔
وزارت داخلہ نے وفاقی دارالحکومت سمیت مختلف 68 شہروں میں موبائل فون سروس بھی دن بھر معطل رکھنے کی ہدایت کر رکھی تھی۔
اسلام آباد میں عاشور کا مرکزی جلوس روایتی طور پر نو محرم کو ہی برآمد ہوتا ہے۔ جمعہ کو مرکزی امام بارگاہ سے برآمد ہونے والے جلوس کی قیادت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اسلام آباد کے صدر علامہ بشارت حسین امامی نے کی۔
انھوں نے محرم کے دوران سکیورٹی انتظامات پر کسی قدر اطمینان کا اظہار کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کی صورتحال کو برقرار رکھنے میں سب لوگوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
محرم میں پیغمبر اسلام کے نواسے حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی یاد میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مجالس اور عزاداری کا اہتمام کرتے ہیں۔ پاکستان میں ان دنوں فرقہ وارانہ کشیدگی بھی دیکھنے میں آتی ہے اور حالیہ برسوں میں محرم کے عشرے میں کئی ہلاکت خیز واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔
مختلف شہروں کو ان دس دنوں کے لیے حساس ترین قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہاں ماضی میں ان ہی دنوں میں ہلاکت خیز فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ان میں چاروں صوبوں کے مختلف شہر شامل ہیں۔
اس مرتبہ 16000 سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کرنے کے علاوہ مذہبی منافرت اور اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے خطیبوں اور ذاکروں کو نہ صرف تقریر کرنے سے منع کر دیا گیا بلکہ بعض شہروں میں ان کے داخلے پر پابندی بھی عائد کر دی گئی۔