پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں گزشتہ ماہ ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے لیے انصاف اور قبائلیوں کو درپیش دیگر مسائل کے حل کے مطالبات کے ساتھ اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے قبائلیوں کا دھرنا اتوار کو مسلسل چوتھے روز بھی جاری رہا۔
دھرنے کے شرکا نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو اس کے نتائج سود مند نہیں ہوں گے۔
نقیب اللہ محسود کو سندھ پولیس کے ایک ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کی پولیس ٹیم نے جنوری کے وسط میں کراچی میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں دیگر تین افراد کے ہمراہ ہلاک کر دیا تھا اور پولیس کا دعویٰ تھا کہ یہ لوگ کالعدم شدت پسند تنظیم کے مشتبہ دہشت گرد تھے۔
تاہم بعد ازاں نقیب اللہ محسود کا تعلق کسی بھی شرپسند گروہ سے ثابت نہیں ہوا اور راؤ انوار اپنے خلاف ہونے والی محکمانہ انکوائری سے بچنے کے لیے روپوش ہوگئے جنہیں تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا۔
اس قتل کے خلاف قبائلی علاقوں کے محسود اور وزیر قبائل کے نوجوانوں سمیت خیبر پختنونخواہ کے بعض دیگر علاقوں سے ہزاروں افراد نے اسلام آباد کا رخ کیا تھا اور یکم فروری سے یہ لوگ نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
دھرنے کے منتظمین میں شامل منظور احمد نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ابھی تک کوئی اعلیٰ حکومتی عہدیدار ان کے پاس نہیں آئے اور صرف وزارت داخلہ اور سیفرون کی طرف سے عہدیداروں کو بات چیت کے لیے بھیجا گیا ہے۔
ان کے بقول ان عہدیداروں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ مظاہرین کے مطالبات وزیراعظم تک پہنچائے جائیں گے اور ان کے حل لیے سنجیدہ کوشش بھی کی جائے گی۔
"لیکن ہم یہاں یقین دہانیوں کے لیے تو نہیں آئے ہم تو سیدھا سادہ معاہدہ چاہتے ہیں کہ ہو جائے اور اگر ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے تو یہ جو عوام اور ریاست کے درمیان خلا ہے برقرار رہے گا اور لوگوں کو غم و غصہ اور بھی زیادہ ہو جائے گا۔۔۔ اگر مطالبات نہیں مانے گئے اور اگر اس طرح لوگ واپس چلے گئے تو اس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔"
دھرنے میں شامل لوگوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندے بھی ان سے ملنے آ رہے ہیں۔
یہاں موجود ایک سماجی کارکن ثنا اعجاز کا کہنا تھا کہ پشتون قوم میں برداشت کا مادہ ہے اور وہ ایک عرصے سے مختلف نامساعد حالات کو برداشت بھی کرتے آ رہے ہیں لیکن ان کے بقول اگر اب اٹھنے والی ان آوازوں پر سنجیدگی سے کان نہ دھرے گئے تو صورتحال کسی طور بھی سود مند ثابت نہیں ہو گی۔
"اگر لوگوں کو اس طرح اگنور کیا جائے گا تو انتشار پیدا ہوگا ، افراتفری بڑھے گی اور اس کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں اس وقت حکومت نہیں ہے تو بہتر یہ ہے کہ وفاق کو برقرار رہنے دیا جائے سب چھوٹی قوموں کو ان کے حقوق دیے جائیں اور ان کو اس بات پر مجبور نہ کیا جائے کہ یہ انتشار پھیلائیں۔"
نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے معاملے کا عدالت عظمیٰ نے بھی نوٹس لے رکھا ہے اور حکومتی عہدیدار ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اس معاملے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کر کے غیر قانونی اقدام کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔