سگریٹ نوشی میں اضافے کے انسانی صحت کے ساتھ ساتھ قومی معشیت پر منفی اثرات ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے اسٹیٹ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستانیوں نےتقریباً ساڑھے 65 ارب سگریٹ سلگھائے ہیں جس کی مالیت مجموعی طور 2 سو ارب روپے ہے۔
رپورٹ کے مطابق سگریٹ نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں تمباکو فروخت کرنے والی کمپنیوں کے کاروبار کو بھی وسعت ملی ہے۔
لیکن طبی ماہرین اس صورتحال سے پریشان ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان سے ملک میں پھیپھٹروں، دل اور سانس کے امراض کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مبین اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ دنیا بھر میں اموات کی پانچ بڑی وجوہات میں پھیپھٹروں کا سرطان سرفہرست ہے جو طویل عرصے تک تمباکو نوشی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اسپتالوں کا رخ کرنے والے مریضوں میں ساٹھ فیصد مریض تمباکو نوشی سے لاحق ہونے والے امراض کا شکار ہوتے ہیں۔
’’مریض کھانستے رہتے ہیں آہستہ آہستہ ان کے اندر بلغم بننا شروع ہو جاتا ہے یہ چیز آگے بڑھتی جائے تو سانس کا چڑھنا اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ پھیپھڑے اس حد تک متاثر ہوتے ہیں کہ ان کو آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے یہ وہ بیماریاں ہیں جو ایک لمبے عرصے تک سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ سگریٹ نوشی سے چھٹکارہ حاصل کرنے والوں کے لیے کچھ ادویات تو موجود ہیں لیکن سب سے زیادہ انحصار اس عادت سے چھٹکارہ حاصل کرنے والے کے پختہ ارادے پر ہے۔
’’رویوں میں تبدیلی سب سے زیادہ اہم ہے جیسے وہ حالات اور دماغی دباؤ جو آپ کو سگریٹ پینے پر مجبور کرتا ہے اس پر قابو پانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اکثر لوگ جو چھوڑ(سگریٹ نوشی) پاتے ہیں اس میں زیادہ تر حصہ ان کی اپنی کوشش اور پختہ ارادے کا ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر مبین نے کہا کہ پاکستان میں سگریٹ نوشی کے خلاف قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروائے بغیر اس پر قابو پانا مشکل ہے۔
حکومت نے ملک میں سگریٹ نوشی کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات کئے ہیں۔ عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کی گئی ہے اور اس پر عائد محصولات کی شرح میں اضافہ کر کے سگریٹ کی فروخت کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات پر سگریٹ کی اشتہاری مہم کو بھی ممنوع قرار دے کر بند کر دیا گیا اور یکم اکتوبر 2011 ء سے ڈبیا کے بغیر کھلے سگریٹ کی فروخت پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔