پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کے سائبر کرائم ونگ نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس یعنی سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی فوج پر تنقید کرنے والوں کا سراغ لگانے کا کام شروع کر دیا ہے۔
جب کہ اطلاعات کے مطابق لگ بھگ ایک درجن ایسی ویب سائیٹس اور بعض افراد کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو کہ اس طرح کی تنقید میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔
گزشتہ اتوار کو پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ’ایف آئی اے‘ کے سائبر کرائم ونگ کو حکم دیا تھا کہ’’آزادی اظہار کی آڑ میں فوج یا اس کے افسران کی تضحیک ناقابلِ قبول ہے۔‘‘ اس لیے اس میں ملوث اشخاص کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔
حکومت کے اس غیر معمولی اقدام پر انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کا اقدام آزادی اظہار پر قدغن کے مترادف ہے۔
’’کیوں کہ اخبارات میں تو ہماری فورسز کے خلاف ویسے ہی کچھ نہیں چھپتا، تو یہ سوشل میڈیا ہی سے تنگ ہیں اور اس کے بارے میں ہی ایف آئی اے اور دوسری ایجنسیوں کو یہ ہدایت ہے کہ وہ اس کو چیک کریں۔‘‘
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’بائیٹس فار آل‘ سے وابستہ فرحان حسین کہتے ہیں کہ ملک میں سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس کے ذریعے مختلف معاملات پر آواز بلند کرنے والوں کے لیے جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔
’’آن لائن سپیس نے لوگوں کو ایک ایسا موقع دیا کہ وہ آ کر اور کھل کر بات کر سکتے ہیں اور مختلف اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں لیکن اب اُن کے لیے جگہ سکڑتی جا رہی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ ’ڈان لیکس‘ کی تحقیقاتی کمیٹی کے بارے میں وزیراعظم کے دفتر سے جاری نوٹیفیکیشن کو فوری طور پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے رد کرنے اور بعد ازاں معاملات طے پانے پر ’ٹویٹ‘ واپس لینے پر حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر فوج سے متعلق مختلف حلقوں کی طرف سے رائے کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔