رسائی کے لنکس

سوشل میڈیا صارف کی سزائے موت ختم کی جائے: ایمنسٹی


تیمور رضا کو ایک مقامی عدالت نے ’فیس بک‘ اور 'واٹس ایپ' پر توہین آمیز مواد پوسٹ اور شیئر کرنے پر موت کی سزا سنائی تھی۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’فیس بک‘ پر مبینہ توہین آمیز مواد پوسٹ کرنے پر جس شخص کو موت کی سزا سنائی گئی ہے، اُسے ختم کیا جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے جنوبی ضلع بہاولپور سے تعلق رکھنے والے ایک شخص تیمور رضا کو ایک مقامی عدالت نے ’فیس بک‘ اور 'واٹس ایپ' پر توہین آمیز مواد پوسٹ اور شیئر کرنے پر موت کی سزا سنائی تھی۔

تیمور رضا کو یہ سزا بہاولپور میں انسداد دہشت گردی کی ایک ضلعی عدالت کی طرف سے سنائی گئی تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی کو مبینہ طور پر توہین آمیز مواد ’’آن لائن‘‘ شیئر کرنے پر موت کی سزا سنانا، انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور ایک خطرناک مثال ہے۔

پاکستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ سائبر کرائم کے تحت کسی شخص کو ’توہین آمیز‘ مواد پوسٹ یا شیئر کرنے پر موت کی سزا سنائی گئی ہو۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک مبہم قانون کو آزادی اظہار کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان میں تین افراد کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے محض الزام پر قتل کر دیا اور بجائے تشدد کرنے والے ہجوم کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے ادارے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔

انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’بائیٹس فار آل‘ سے وابستہ فرحان حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سوشل میڈیا پر مبینہ توہین آمیز مواد پوسٹ کرنے پر سزا دینا ایک خطرناک رجحان ہو سکتا ہے۔

’’یہاں پر بہت سے امکانات ہیں کہ کسی کو غلط بھی پھنسایا جا سکتا ہے، کیوں کہ سوشل میڈیا ایسی چیز ہے کہ ہم روز سنتے ہیں کہ لوگوں کے اکاؤنٹ ہیک ہو جاتے ہیں، لوگوں کی ذاتی معلومات چوری کر کے جعلی اکاؤنٹ بنا لیے جاتے ہیں۔ تو اس سے لوگوں کو پھنسانا کافی آسان ہوتا ہے۔‘‘

فرحان حسین کا کہنا تھا کہ ’’آن لائن‘‘ جو باتیں یا بحث ہو رہی ہوتی ہے اُسے حقائق کے برعکس بھی پیش کیا جاتا ہے۔

’’تو ان چیزوں کو بہت زیادہ احتیاط سے دیکھنا چاہیے اور لوگوں کو شک کا فائدہ دینا چاہیے۔‘‘

واضح رہے کہ پاکستان میں اگرچہ توہین مذہب کے جرم پر عدالتوں سے سزائیں تو سنائی جاتی رہی ہیں لیکن تاحال کسی کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

دسمبر 2016 میں ایمنسٹی انٹرنیشل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں توہین مذہب کا قانون عموماً مذہبی اقلتیوں اور دوسروں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

تاہم حکومت کا موقف رہا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکا جائے۔

تیمور رضا کو 2016 میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس پر الزام تھا کہ اس نے پیغمبر اسلام اور ان کے صحابہ سے متعلق نازیبا تحریریں اور تصاویر اپنے فیس بک کے صفحے پر شائع کی تھیں۔

بتایا جاتا ہے کہ تیمور کے ’فیس بک پیج‘ پر لگ بھگ 3500 افراد موجود ہیں۔

تیمور کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔

XS
SM
MD
LG