کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کو پیر کے روز رہا کر دیا گیا۔
پشاور سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ مسعود الرحمان نے پیر کو صوفی محمد کی رہائی کی تصدیق کی اور کہا کہ انہیں پشاور کی ڈیفنس کالونی میں قائم کردہ سب جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔
اپریل 2009 سے پشاور سنٹرل جیل میں قید مولانا صوفی محمد نے صحت کی بنیاد پر ضمانت پر رہائی کیلئے درخواست دائر کی تھی جسے پشاور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ کے جج جسٹس وقار احمد سیٹھ نے منظور کرتے ہوئے مولانا صوفی محمد کو سات لاکھ روپے کے مچلکے داخل کرنے کاحکم دیا ہے۔
قواعد کے مطابق مچلکوں کے داخل ہونے کے بعد مولانا صوفی محمد کو رہا کر دیا گیا ہے۔
ضلع دیر پائیں کے علاقے میدان سے تعلق رکھنے والے مولانا صوفی محمد پہلے جماعت اسلامی سے منسلک تھے۔ تاہم 1992ء میں انھوں نے ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے تحریک نفاذ شریعت محمدی قائم کی۔
اس تنظیم نے 1994ء کے اواخر میں حکومت کے خلاف بغاوت کر کے ایک مزاحمتی تحریک چلائی تھی جس میں ایک درجن سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والا ایک صوبائی ممبر بھی شامل تھا۔
صوفی محمد ستمبر 2001 میں 9/11 کے سانحے کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف لگ بھگ 10 ہزار مسلح افراد پر مشتمل لشکر کی قیادت کررہے تھے۔ تاہم اپریل 2008 میں عوامی نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت نے صوفی محمد کو اس لئے رہا کر دیا تھا کہ وہ ملا فضل اللہ کو صلح کیلئے آمادہ کریں گے۔
مگر ناکامی پر حکومت نے اُن کو 2009 میں دوبارہ گرفتار کیا تھا۔ پشاور کی سنٹرل جیل میں قید مولانا صوفی محمد پچھلے کئی مہینوں سے شدید علیل ہیں اور اسی بنیاد پر اُنہوں نے ضمانت پر رہائی کیلئے درخواست دائر کی تھی۔
مولانا صوفی محمد کے خلاف حکومت کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کی حمایت کرنے پر مقدمات درج ہیں۔
مولانا صوفی محمد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے سسر ہیں۔ پہلی بار مولانا صوفی محمد کو نومبر 2001 میں اس وقت سکیورٹی فورسز نے گرفتار کر لیا تھا جب وہ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے پر وطن واپس آرہے تھے۔