پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ممبئی حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز ذکی الرحمٰن لکھوی کی نظر بندی ختم کر کے اُن کی رہائی کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ذکی الرحمٰن لکھوی کی نظر بندی ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نظر بندی ختم کرنے کا فیصلہ عجلت میں سنایا۔
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے کہا ہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلے کے لیے سماعت دوبارہ شروع کرے اور دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد ہی فیصلہ سنایا جائے۔
عدالت عظمٰی کے دو رکنی بینچ نے اپنے حکم نامے میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے کہا کہ وہ وفاقی حکومت کے موقف کو سننے کے بعد ہی حتمی فیصلہ سنائے۔
وفاقی وزارت داخلہ کے وکلاء کا یہ موقف تھا کہ اُنھیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں نہیں سنا گیا۔
سپریم کورٹ میں موجود اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں سوچ بچار کے بعد وفاقی حکومت نے ذکی الرحمٰن لکھوی کو نظر بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 18 دسمبر کو ذکی الرحمٰن لکھوی کی ضمانت پر رہائی کی درخواست منظور کی تھی، لیکن اس کے فوراً بعد حکومت نے خدشہ نقص عامہ کے قانون کے تحت ذکی الرحمٰن کو تین ماہ کے لیے نظر بند کر دیا۔
اس فیصلے کے خلاف ذکی الرحمٰن لکھوی کے وکلاء نے جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تو عدالت عالیہ نے اُن کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پولیس نے اغواء کے ایک پرانے مقدمے میں ذکی الرحمٰن کو گرفتار کر لیا اور وہ ان دنوں ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔
تاہم ساتھ ہی وفاق نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمٰی میں اپیل دائر کر دی تھی جس کے بارے میں فیصلہ بدھ کو سنایا گیا۔
ذکی الرحمٰن لکھوی کی ضمانت پر رہائی کے عدالتی فیصلے کے بعد بھارت کی طرف سے شدید احتجاج سامنے آیا۔ پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو بھی نئی دہلی میں وزارت خارجہ کو طلب کر کے بھارت نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔
بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی میں 2008ء میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں پاکستان میں سات افراد کو گرفتار کر کے اُن کے خلاف انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے، سات ملزمان میں ذکی الرحمٰن لکھوی بھی شامل ہیں۔
ذکی الرحمٰن لکھوی 2009ء سے زیر حراست ہیں اور اُن کے وکلاء کا موقف ہے کہ اُن کے موکل کے خلاف ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد تاحال پیش نہیں کیے جا سکے ہیں۔
بھارت ممبئی حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر طیبہ پر عائد کرتا ہے۔ 26 نومبر 2008ء کو ہونے والے حملوں غیر ملکی شہریوں سمیت 166 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔