پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والی آسیہ بی بی کی اپیل کی سماعت ملتوی کر دی ہے اور آئندہ سماعت کے لیے فی الوقت کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔
مسیحی خاتون آسیہ بی بی نے چھ سال قبل ملنے والی اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی تھی جس کی سماعت جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کو شروع کرنی تھی۔
لیکن بینچ میں شامل جسٹس اقبال حمید الرحمن نے یہ کہہ کر خود کو اس سماعت سے علیحدہ کر لیا کہ وہ پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے مقدمہ قتل کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت سے بھی وابستہ رہے ہیں اور ان دونوں مقدمات کا آپس میں تعلق ہے لہذا وہ آسیہ بی بی کی درخواست کی شنوائی میں شامل نہیں ہو سکتے۔
بعض مذہبی جماعتیں آسیہ بی بی کی سزائے موت پر جلد عملدرآمد کا مطالبہ کرتی رہی ہیں اور بدھ کو دیر گئے اسلام آباد کی لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ اگر آسیہ بی بی کو رہا کیا گیا تو ملک گیر سطح پر احتجاج کیا جائے گا۔ اسی تناظر میں جمعرات کو عدالت عظمیٰ کے باہر کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین کامران عارف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عدالتیں دلائل کی بنیاد پر فیصلے دیتے ہیں نہ کہ عوامی رائے عامہ پر۔
"ایسے بیانات تشویش کا باعث تو ہیں لیکن میرا نہیں خیال یہ سپریم کورٹ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ توہین مذہب سمیت کسی بھی مقدمے کے ملزمان کے تحفظ کو یقینی بنایا ریاست کا کام ہے۔
آسیہ بی بی کو 2009ء میں پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں مسلمان دیہاتی خواتین کے ساتھ بحث و تکرار کے دوران اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں 2010ء میں ایک ماتحت عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جسے بعد میں عدالت عالیہ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
پانچ بچوں کی ماں آسیہ بی بی اس الزام کو مسترد کرتی ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے تحت متعدد لوگوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے جن میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے لیکن سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے ان سزاؤں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔
آسیہ بی بی کا معاملہ اس وقت بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا جب پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے ان سے جیل میں ملاقات کی اور بعد ازاں توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اس میں ترمیم کے بارے میں غور کیے جانے کا ایک بیان دیا۔
اس بیان پر مذہبی حلقوں کی طرف سے انھیں خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور جنوری 2011ء میں سلمان تاثیر کے حفاظتی دستے میں شامل پولیس اہلکار ممتاز قادری نے انھیں اسلام آباد میں فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
ممتاز قادری کو بھی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی اور اس کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کو بھی مسترد کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے سزا کو برقرار رکھا تھا۔
ممتاز قادری کی سزائے موت پر رواں سال فروری میں عملدرآمد کیا گیا تھا۔