پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے چاروں صوبائی حکومتوں کو شیشہ کیفے کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے اس سلسلے میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا ہے۔
جمعرات کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملک میں شیشہ کیفے سے متعلق ایک از خود نوٹس کی سماعت کی جس میں بینچ کا کہنا تھا کہ متعدد شیشہ کیفیز میں منشیات بھی فروخت ہو رہی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
حالیہ برسوں میں ملک کے خصوصاً بڑے شہروں میں شیشہ کیفے کا رواج ہو چلا تھا اور یہ مراکز خاص طور پر نوجوانوں میں مقبول ہیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز سے استفسار کیا کہ عوامی مقامات پر تمباکو نوشی پر پابندی سے متعلق حکم پر کیا عملدرآمد کیا گیا۔ جس پر بینچ کو بتایا گیا کہ ضلعی انتظامیہ کو اس ضمن میں احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
لیکن چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں ایسا معلوم ہوتا کہ عوامی مقامات پر تمباکو نوشی کی ممانعت کے بورڈ آویزاں کر کے معاملے کو نمٹا دیا گیا ہے۔
سندھ حکومت کی طرف سے عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ صوبے میں متعدد شیشہ کیفے کو بند کر کے ان پر جرمانے عائد کیے گئے ہیں جب کہ وفاقی حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ دارالحکومت میں ایسے نوے کیفے بند کر دیے گئے ہیں۔
عدالت نے چاروں صوبوں سے شیشہ کیفے کے خلاف کارروائی کی رپورٹ مرتب کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
طبی ماہرین یہ کہہ چکے ہیں کہ شیشہ پینے سے سانس کی بیماریوں میں سگریٹ نوشی کی نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہوتا ہے اور یہ امر افسوسناک ہے کہ شیشہ پینے والوں کو اس سے جڑے سنگین خطرات سے آگاہی نہیں اور اکثریت اسے مضر صحت نہیں سمجھتی۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک گھنٹہ شیشہ پینے کا نقصان دو سو سگریٹ پینے کے برابر ہے۔
بعض ماہرین اسے سگریٹ نوشی کی طرف رغبت کی وجہ بھی قرار دیتے ہیں اور ان کے بقول خوشبو دار تمباکو پینے والے نوجوان نہ صرف سگریٹ نوشی کی طرف جلد متوجہ ہوتے ہیں بلکہ بعض شیشے میں ہی منشیات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔
پاکستانی عہدیداروں کے مطابق ملک میں تمباکو نوشی کے رجحان میں بھی حالیہ برسوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے اور ہر روز چھ سے بارہ سال کی عمر کے 1200 بچے سگریٹ نوشی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔