وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ مکمل ہونے کے بعد ایک بار پھر پاکستان میں سب کی نظریں عدالت عظمیٰ پر لگی ہوئی ہیں جس کے تین رکنی بینچ نے پیر سے اس رپورٹ پر فریقین کے دلائل کی سماعت شروع کی۔
گزشتہ پیر کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنا کام مکمل کر کے رپورٹ تین رکنی بینچ کو پیش کر دی تھی جس میں شریف خاندان کے مالی ذرائع سے متعلق عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔
پیر کو سماعت شروع ہونے سے قبل شریف خاندان اور وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پر اپنے، اپنے اعتراضات عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے جس میں ٹیم کے طریقہ کار پر تحفظات اور دائرہ کار سے تجاوز کا تذکرہ کیا گیا۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے سامنے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ شریف خاندان کے بیانات میں تضادات پائے جاتے ہیں اور ان کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات کی صحت بھی درست نہیں۔
نعیم بخاری کے بعد حزبِ اختلاف کی جماعت، جماعتِ اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیرِاعظم نے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب میں اپنے غیر ملکی اثاثوں سے متعلق غلط بیانی کی تھی اور وہ صادق اور امین نہیں رہے۔
عدالت میں حزب مخالف کے ایک راہنما اور پاناما پیپرز معاملے میں درخواست گزار شیخ رشید احمد نے بھی دلائل دیے جس کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل شروع کیے۔
جسٹس اعجاز افضل خان نےاپنے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد کی پابند نہیں اور معاملے کو قانون کے مطابق دیکھا جائے گا۔
بینچ گزشتہ ہفتے رپورٹ کی سماعت کا اعلان کرتے ہوئے فریقین کو یہ ہدایت کر چکا ہے کہ ایسے دلائل پیش نہ کیے جائیں جو پہلے دیے جا چکے ہیں۔
بعد ازاں معاملے کی سماعت منگل تک ملتوی کر دی گئی۔
سماعت کے بعد حسب معمول فریقین کی جماعتوں کے راہنماؤں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے اپنے اپنے موقف کو پرزور اندازمیں پیش کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سب واضح ہو گیا ہے اور ان کے وکیل نے عدالت کے سامنے تین استدعائیں رکھی ہیں۔
"نواز شریف صاحب کو عدالت میں بلایا جائے اور اگر سمجھتے ہیں کہ ان پر نااہلی سے پہلے جرح کی ضرورت ہے تو وہ کی جائے، دوسرا آرٹیکل 62، 63 کے تحت نواز شریف صاحب کو نااہل قرار دیا جائے اور تیسرا نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف جو مقدمات ہیں وہ احتساب عدالت کو بھیجے جائیں اور اس (رپورٹ) کو الزامات کی حتمی تفتیش تصور کیا جائے۔"
دوسری طرف وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اپنی جماعت کے موقف کو دہراتے ہوئے تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو مسترد کیا اور کہا کہ وزیراعظم اس معاملے پر سرخرو ہوں گے۔
"جس بدنیتی پر جے آئی ٹی رپورٹ مبنی ہے جس پر آج ایک معزز جج نے خود پوچھا کہ جو دستاویز جمع کی گئی ہیں وہ تصدیق شدہ ہیں؟ تو آواز آئی کہ نہیں ہیں۔ وہ دستاویز جو تصدیق شدہ نہیں ہیں وہ بنیاد بنائی جا رہی ہیں منتخب وزیراعظم کے استعفے کی۔۔۔آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ آئے گا اور وزیراعظم اعلیٰ عدلیہ سے سروخرو ہوں گے۔"
حزب مخالف وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی آ رہی ہے جسے نواز شریف مسترد کر چکے ہیں۔