معیشت کی بحالی اور اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے غیر قانونی طریقے سے سوئس بینکوں میں منتقل کیے گئے دو سو ارب ڈالر واپس لانے پر کام کر رہی ہے۔
جمعہ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کی حکومت کے درمیان موجودہ ٹیکس معاہدے پر دوبارہ بات چیت کے لیے ایک سمری کابینہ سے منظور ہو چکی ہے۔
بعد ازاں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس معاہدے سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے رانا افضل کا کہنا تھا کہ اس سے ایسے پاکستانیوں کی نشاندہی ہو سکے گی جنہوں نے غیر قانونی طریقے سے رقوم سوئس بینکوں میں منتقل کیں۔
تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ یہ رقم کن افراد کی ہے اور حکومت کو کیسے معلوم ہوا کہ پاکستانیوں نے غیر قانونی طور پر یہ رقم سوئس بینکوں میں منتقل کی گئی۔
تاہم سرکاری میڈیا کے مطابق سوئس حکام نے بتایا ہے ان کے مختلف بینکوں میں پاکستان کے شہریوں کے تقریباً دو سو ارب ڈالر جمع ہیں۔
رانا محمد افضل کا کہنا تھا کہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت وہ دوسرے ملکوں سے ایک معاہدہ کریں گے اور ان کے بینکوں میں اگر ایسا غیر قانونی پیسہ موجود ہوگا تو وہ اس کی معلومات انھیں فراہم کریں گے اور اس کی واپسی کے لیے بھی راستہ کھولیں گے۔
"برطانیہ، بھارت اور کئی دیگر ممالک نے ڈبل ٹیکسیشن کے اس معاہدے کی توثیق کی، مسلم لیگ ن کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد کابینہ سے منظوری لی کہ جو ادھورا سا معاہدہ سابقہ حکومت نے کیا تھا وہ ناکافی ہے ہمیں نئی ٹریٹی سائن کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ جنوری 2014 میں وزارت خزانہ نے سوئٹزرلینڈ کے سفارتخانے سے ذریعے سوئس حکومت سے رابطہ کیا اور انھوں نے بھی اس پر آمادگی ظاہر کی۔"
رانا افضل کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ایک وفد اس معاہدے پر پیش رفت کے لیے 26 سے 28 اگست کو سوئٹزرلینڈ میں وہاں کے حکام سے ملاقاتیں کرے گا اور انھیں امید ہے کہ پاکستان نے غیر قانونی طریقے سے سوئس بینکوں میں منتقل کیا جانے والا پیسہ ملک میں واپس آسکے گا۔
پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا افضل نے اس رقم کے پاکستان کو واپس ملنے کے امکانات کے بارے میں کہا کہ بہت سے ملک اپنی رقوم واپس لے چکے ہیں اور پاکستان کو بھی کامیاب ہونا چاہیئے۔
"اگر وہ لوگ اب بھی پاکستان کے شہری ہیں یا وہ اس وقت پاکستان کے شہری تھے جب انھوں نے یہ رقم غیر قانونی طریقے سے وہاں بجھوائی تو یقیناً انھوں نے پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کی اور یقیناً ہم ان کےخلاف کارروائی کریں گے۔"
پاکستان کو حالیہ برسوں میں توانائی کے شدید بحران کا سامنا رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ نواز انتظامیہ نے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کے علاوہ عالمی بینک سے بھی رجوع کیا اور ان سے اربوں ڈالر کے قرض کے معاہدے بھی کیے۔
حکومت ملک میں محصولات کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے اور عہدیداروں کے مطابق رواں مالی سال میں ایک لاکھ افراد کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا اور آئندہ آنے والے سالوں میں اس تعداد میں اسی طرح سے اضافہ کیا جائے گا۔
جمعہ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان اور سوئٹزرلینڈ کی حکومت کے درمیان موجودہ ٹیکس معاہدے پر دوبارہ بات چیت کے لیے ایک سمری کابینہ سے منظور ہو چکی ہے۔
بعد ازاں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس معاہدے سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے رانا افضل کا کہنا تھا کہ اس سے ایسے پاکستانیوں کی نشاندہی ہو سکے گی جنہوں نے غیر قانونی طریقے سے رقوم سوئس بینکوں میں منتقل کیں۔
تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ یہ رقم کن افراد کی ہے اور حکومت کو کیسے معلوم ہوا کہ پاکستانیوں نے غیر قانونی طور پر یہ رقم سوئس بینکوں میں منتقل کی گئی۔
تاہم سرکاری میڈیا کے مطابق سوئس حکام نے بتایا ہے ان کے مختلف بینکوں میں پاکستان کے شہریوں کے تقریباً دو سو ارب ڈالر جمع ہیں۔
رانا محمد افضل کا کہنا تھا کہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت وہ دوسرے ملکوں سے ایک معاہدہ کریں گے اور ان کے بینکوں میں اگر ایسا غیر قانونی پیسہ موجود ہوگا تو وہ اس کی معلومات انھیں فراہم کریں گے اور اس کی واپسی کے لیے بھی راستہ کھولیں گے۔
"برطانیہ، بھارت اور کئی دیگر ممالک نے ڈبل ٹیکسیشن کے اس معاہدے کی توثیق کی، مسلم لیگ ن کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد کابینہ سے منظوری لی کہ جو ادھورا سا معاہدہ سابقہ حکومت نے کیا تھا وہ ناکافی ہے ہمیں نئی ٹریٹی سائن کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ جنوری 2014 میں وزارت خزانہ نے سوئٹزرلینڈ کے سفارتخانے سے ذریعے سوئس حکومت سے رابطہ کیا اور انھوں نے بھی اس پر آمادگی ظاہر کی۔"
رانا افضل کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ایک وفد اس معاہدے پر پیش رفت کے لیے 26 سے 28 اگست کو سوئٹزرلینڈ میں وہاں کے حکام سے ملاقاتیں کرے گا اور انھیں امید ہے کہ پاکستان نے غیر قانونی طریقے سے سوئس بینکوں میں منتقل کیا جانے والا پیسہ ملک میں واپس آسکے گا۔
پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا افضل نے اس رقم کے پاکستان کو واپس ملنے کے امکانات کے بارے میں کہا کہ بہت سے ملک اپنی رقوم واپس لے چکے ہیں اور پاکستان کو بھی کامیاب ہونا چاہیئے۔
"اگر وہ لوگ اب بھی پاکستان کے شہری ہیں یا وہ اس وقت پاکستان کے شہری تھے جب انھوں نے یہ رقم غیر قانونی طریقے سے وہاں بجھوائی تو یقیناً انھوں نے پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کی اور یقیناً ہم ان کےخلاف کارروائی کریں گے۔"
پاکستان کو حالیہ برسوں میں توانائی کے شدید بحران کا سامنا رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ نواز انتظامیہ نے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کے علاوہ عالمی بینک سے بھی رجوع کیا اور ان سے اربوں ڈالر کے قرض کے معاہدے بھی کیے۔
حکومت ملک میں محصولات کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے اور عہدیداروں کے مطابق رواں مالی سال میں ایک لاکھ افراد کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا اور آئندہ آنے والے سالوں میں اس تعداد میں اسی طرح سے اضافہ کیا جائے گا۔