پشاور/اسلام آباد —
شمالی ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے ملا فضل اللہ کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا نیا امیر مقرر کر دیا گیا ہے۔
طالبان ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ 17 رکنی شوریٰ نے طویل مشاورت کے بعد جمعرات کو کیا۔
تحریک طالبان کا سربراہ حکیم اللہ محسود گزشتہ جمعہ کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ہونے والے ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ میزائل حملے میں حکیم اللہ محسود کی گاڑی کو ڈانڈے درپا خیل نامی علاقے میں نشانہ بنایا گیا۔
پاکستانی طالبان کی شوریٰ کے اجلاس میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے شیخ خالد حقانی کو تحریک طالبان کا نائب سربراہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔
ملا فضل اللہ وادی سوات میں طالبان کا کمانڈر رہ چکا ہے۔ فضل اللہ 2005ء میں عسکریت پسندوں کے ایک کمانڈر کے طور سامنے آیا اور اپنے خیالات کے پرچار کے لیے اس نے سوات میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو اسٹیشن بھی قائم کیا۔
سوات میں جب ملا فضل اللہ کی قیادت میں پُر تشدد کارروائیوں میں شدت آئی اور لوگوں کو سر عام سزائیں دی جانے لگیں تو پاکستان فوج نے 2009ء میں آپریشن کیا لیکن اس دوران فضل اللہ رپوش ہو گیا اور باور کیا جاتا ہے کہ وہ سرحد پار افغانستان کے صوبے نورستان میں روپوش ہے۔
وادی سوات میں فوجی کارروائی سے قبل حکومت نے مذہبی رہنما صوفی محمد کے توسط سے مقامی طالبان کے ساتھ معاہدہ بھی کیا لیکن اس کی ناکامی کے بعد علاقے میں کارروائی کی گئی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کیوں کہ ملا فضل اللہ سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملوں میں ملوث رہا ہے اور اب اس کے طالبان کا سربراہ بننے کے بعد حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان مجوزہ امن مذاکرات کوغیر معینہ مدت تک ملتوی ہونے کا خدشہ ہے۔
طالبان ذرائع نے بتایا کہ یہ فیصلہ 17 رکنی شوریٰ نے طویل مشاورت کے بعد جمعرات کو کیا۔
تحریک طالبان کا سربراہ حکیم اللہ محسود گزشتہ جمعہ کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ہونے والے ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ میزائل حملے میں حکیم اللہ محسود کی گاڑی کو ڈانڈے درپا خیل نامی علاقے میں نشانہ بنایا گیا۔
پاکستانی طالبان کی شوریٰ کے اجلاس میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے شیخ خالد حقانی کو تحریک طالبان کا نائب سربراہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔
ملا فضل اللہ وادی سوات میں طالبان کا کمانڈر رہ چکا ہے۔ فضل اللہ 2005ء میں عسکریت پسندوں کے ایک کمانڈر کے طور سامنے آیا اور اپنے خیالات کے پرچار کے لیے اس نے سوات میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو اسٹیشن بھی قائم کیا۔
سوات میں جب ملا فضل اللہ کی قیادت میں پُر تشدد کارروائیوں میں شدت آئی اور لوگوں کو سر عام سزائیں دی جانے لگیں تو پاکستان فوج نے 2009ء میں آپریشن کیا لیکن اس دوران فضل اللہ رپوش ہو گیا اور باور کیا جاتا ہے کہ وہ سرحد پار افغانستان کے صوبے نورستان میں روپوش ہے۔
وادی سوات میں فوجی کارروائی سے قبل حکومت نے مذہبی رہنما صوفی محمد کے توسط سے مقامی طالبان کے ساتھ معاہدہ بھی کیا لیکن اس کی ناکامی کے بعد علاقے میں کارروائی کی گئی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کیوں کہ ملا فضل اللہ سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملوں میں ملوث رہا ہے اور اب اس کے طالبان کا سربراہ بننے کے بعد حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان مجوزہ امن مذاکرات کوغیر معینہ مدت تک ملتوی ہونے کا خدشہ ہے۔