فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ '’جو کچھ پی ٹی وی کی انتظامیہ یونین ورکرز کے ساتھ کر رہی ہے وہ انتہائی نامناسب ہے‘'، اور '’حکومت پاکستان آئندہ پندرہ دن میں نئے ایم ڈی کی تقرری کرنے والی ہے‘'
پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ''پی ٹی وی کے قائم مقام مینیجنگ ڈائریکٹر ارشد خان کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کی سفارش وزیر اعظم کو بھیج دی گئی ہے۔''
پاکستان ٹیلی ویژن کی انتظامیہ اور ملازمین کے درمیان ادارے کے انتظامی اور مالی مسائل پر تنازعات نے سر اٹھالیا ہے جس کی وجہ سے پی ٹی وی کی ورکرز یونین نے گزشتہ کئی روز سے ہڑتال کر رکھی ہے۔
ملازمین نے اسلام آباد میں ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر کے دفتر کے اندر دھرنا دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے پی ٹی وی کے ایم ڈی ارشد خان سمیت اعلیٰ افسران ادارے سے غیر حاضر ہیں۔
پی ٹی وی کی انتظامیہ نے صورتِ حال کے پیشِ نظر ہڑتال کرنے والے ملازمین میں سے دس کی فوری معطلی کا حکم جاری کیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کا نجی میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ پاکستانی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ پی ٹی وی کو بند کر دیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ نے اس صورتِ حال پر جب وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے دریافت کیا تو انہوں نے پی ٹی وی بند کرنے کی اطلاعات کی تردید کی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن کی انتظامیہ حکومتِ پاکستان سے 3ء6 ارب روپے کا تقاضا کر رہی ہے جس کے جواب میں وزارتِ اطلاعات نے انتظامیہ کو ایک خط لکھ کر کچھ بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔
وفاقی وزیر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کے خط اور انتظامیہ سے کیے گئے سوالات کو مس کوٹ کیا جا رہا ہے یا توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔
"میں نے یا حکومت نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ پی ٹی وی کو بند کر دیا جائے گا۔ اسٹیٹ رن ٹیلی ویژن کیسے بند ہو سکتا ہے؟ دراصل میں نے پی ٹی وی کے ایم ڈی سے تحریری طور پر پوچھا ہے کہ انہوں نے کسی قسم کا کوئی بزنس پلان نہیں دیا۔ پی ٹی وی کے پاس جو اربوں روپے کی پراپرٹی ہے اسے استعمال کرنے کا کوئی طریقۂ کار نہیں بنایا اور پی ٹی وی مسلسل خسارے میں جا رہا ہے۔ پنشنرز کو پنشنز نہیں دے پا رہے۔ یہی صورتِ حال رہے گی تو پھر ادارہ کیسے چلے گا؟"
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ حکومتوں نے پی ٹی وی میں ایسی بھرتیاں کی ہیں جن کی ضرورت نہیں تھی۔
"صرف لاہور شہر میں پی ٹی وی کے پاس 104 پروڈیوسرز ہیں۔ پورے پاکستان کے میڈیا میں جتنے اینکرز ہیں اس سے تین گنا زیادہ اینکرز صرف پی ٹی وی میں ہیں۔ اسی طرح نچلے درجے پر بھی ایسی بے شمار بھرتیاں کی گئی ہیں جن کا مقصد محض لوگوں کو اکاموڈیٹ کرنا ہے۔ اگر کسی ادارے کو آپ اس طرح چلائیں گے تو اس کا یہی حشر ہو گا جو ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کا ہو رہا ہے۔ وہ زیادہ عرصہ سروائیو نہیں کر پائے گا۔"
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ جو کچھ پی ٹی وی کے ایم ڈی یونین کے ساتھ کر رہے ہیں وہ انتہائی نامناسب ہے۔ جب آپ لوگوں کو تنخواہیں نہیں دے رہے، میڈیکل الاؤنس نہیں دے رہے، پنشنرز کو پنشن سے محروم رکھے ہوئے ہیں تو لوگ احتجاج تو کریں گے۔ اس لیے آپ اپنی کوتاہیوں کو یونین پر اور اسٹاف پر لگا کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی ایک آزاد بورڈ کے تحت چلنے والا ادارہ ہے اور اس کے مینیجنگ ڈائریکٹر کی تقرری پرائم منسٹر آفس کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اگرچہ ماضی میں وزارتِ اطلاعات نے پی ٹی وی کے معاملات میں مرکزی کردار ادا کیا ہے تاہم عمران خان کے دورِ حکومت میں اس وزارت کا پی ٹی وی کے معاملے میں کردار محض ایک کو آر ڈینیٹنگ منسٹری کا ہے۔
پی ٹی وی کے موجودہ منیجنگ ڈائریکٹر ارشد خان کی تقرری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ اگرچہ یہ تقرری پرائم منسٹر آفس کی جانب سے کی گئی ہے تاہم ارشد خان کو یہ عہدہ قائم مقام ایم ڈی کے طور پر دیا گیا تھا۔ قائم مقام ایم ڈی اتنا عرصہ نہیں رہتا۔ حکومتِ پاکستان آئندہ 15 روز کے اندر نئے ایم ڈی کا تقرر کرنے والی ہے۔ اس لیے میں نے وزیرِ اعظم عمران خان کو سفارشات بھیج دی ہیں کہ ارشد خان کو فوری طور پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ادارے میں کرپشن اور مالی مسائل محض اس لیے سامنے آرہے ہیں کیونکہ پی ٹی وی میں نا اہل افراد کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس نا اہلی کی ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ پی ٹی وی کے پاس فروخت کرنے کے لیے بہتر پروگرامنگ نہیں مگر وہاں ڈائریکٹر سیلز کے عہدے پر کسی شخص کو رکھ لیا جاتا ہے اور اسے 15 لاکھ روپے تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ ان کے بقول یہ نا اہلی نہیں تو اور کیا ہے؟
پی ٹی وی نیوز کی اسلام آباد میں کرنٹ افیئرز کی پروڈیوسر اور ورکرز یونین کی ڈپٹی جنرل سیکریٹری مریم سکندر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی مالی سے زیادہ انتظامی مسائل کا شکار ہے۔
ادارے کی جانب سے ملازمین کی مراعات میں کٹوتی کا ذکر کرتے ہوئے مریم سکندر نے بتایا، "نہ تو پنشن والے ملازمین کی سنی جارہی ہے اور نہ ہی حاضر سروس افراد کے مطالبات پر کوئی کان دھر رہا ہے۔ پی ٹی وی نے 54 سال بعد ریٹائرڈ اور حاضر سروس دونوں ہی ملازمین کے لیے میڈیکل کی سہولت ختم کر دی ہے۔ اب نہ تو کوئی اسپتال، نہ ہی ڈسپنسری یا لیبارٹری ادارے کے پینل پر ہے۔ ساتھ ہی ادارے کی جانب سے ملازمین کو لانے اور لے جانے کے لیے جو بسیں چلائی جاتی تھیں انہیں بھی بند کر دیا گیا ہے۔ ادارے میں دو سال سے کسی کی تنخواہ میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔ نہ ہی پروموشن کی کوئی صورت نظر آتی ہے اور نہ ہی کانٹریکٹ پر کام کرنے والوں کے کانٹریکٹس کی تجدید کی جانب کوئی توجہ دی جارہی ہے۔"
مریم سکندر کے مطابق پی ٹی وی میں اس وقت تقریباً پانچ ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں سے چار ہزار افراد ریگولر ملازمین ہیں جبکہ باقی افراد کانٹریکٹ پر ہیں اور اس وقت سب کے سب انتظامیہ کے ان اقدامات سے متاثر ہو ر ہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آج سے دس سال پہلے پی ٹی وی کے ملازمین کی تعداد 9500 تھی۔ بجلی کے بلوں کے ذریعے آنے والے پی ٹی وی کے ریونیو کا اماؤنٹ 25 روپے تھا۔ اب یہ رقم 35 روپے ہے اور ملازمین کی تعداد نصف ہو چکی ہے۔ اس وقت پی ٹی وی کا ایک چینل تھا۔ اب آٹھ چینلز ہیں جب کہ نوے کے قریب بوسٹرز ہیں جو پورے پاکستان میں ٹرانسمیشن پہنچا رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں کی مد میں آنے والا سالانہ ریوینیو 10 ارب روپے ہے۔ اس کے باوجود ہم خسارے میں ہیں اور ملازمین کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
مریم سکندر پی ٹی وی کے ساتھ گزشتہ 13 سال سے منسلک ہیں لیکن انہیں جمعے کو پی ٹی وی کی انتظامیہ نے فوری معطل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
مریم سکندر نے اس اقدام پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان سمیت جن 10 افراد کی معطلی کا حکم آیا ہے وہ اس حکم کو نہیں مانتے اور نہ ہی ان الزامات کو تسلیم کرتے ہیں جو ان پر لگائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہم دفتر جاتے رہیں گے اور اپنا احتجاج اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔"
معطلی کے حکم نامے میں مریم سکندر پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے غیر قانونی ہڑتال کی ہے۔
لیکن مریم کا کہنا ہے کہ دراصل انتظامیہ نے اس ہڑتال پر اسٹے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جس میں انہیں ناکامی ہوئی اور اب اس ہڑتال کو ختم کرنے کے لیے ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ انہیں اور یونین کے دیگر افراد کو معطل کرتے۔
ایم ڈی کی تقرری پر بات کرتے ہوئے مریم سکندر کا مزید کہنا تھا کہ ارشد خان دراصل پی ٹی وی کے بورڈ کے چیئرمین کے طور پر بھرتی ہوئے تھے۔ جس کے کچھ دن بعد وہ اپنے طور پر بورڈ سے منظوری کروا کر خود ساختہ ایم ڈی بن گئے۔ جس بورڈ سے انہوں نے یہ منظوری لی اس میں پانچ ممبرز ہونا ضروری ہیں مگر وہ پانچ ممبرز بھی نہیں تھے۔ پی ٹی وی کے ایم ڈی کی تقرری کا یہ عمل ہے ہی نہیں۔ وہ خود ساختہ ایم ڈی ہیں۔ جب ہم نے اس پر احتجاج کیا تو انہوں نے ہمیں مذاکرات کی دعوت دی ۔ ایم ڈی نے ایک کمیٹی بنائی اور کہا کہ دس دن کے اندر ہمیں سفارشات پیش کریں جس میں میڈیکل کی سہولت اور 50 فی صد ہاؤس ریکوزیشن کے معاملات شامل تھے۔ اس کے بعد ہماری یونین نے 32 دن تک مذاکرات جاری رکھے مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
مریم نے بتایا کہ فواد چوہدری کی جانب سے لکھے گئے خط میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ درست ہیں اور اس معاملے کو ادارے کی نا اہلی اور نالائقی ہی کہا جا سکتا ہے۔ پی ٹی وی اسپورٹس کے پاس پیسہ کمانے کی اہلیت موجود ہے لیکن بد انتظامی کی انتہا نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا۔
مریم سکندر نے حکومت سے اپیل کی کہ ادارے کو کم سے کم ایک بار بیل آؤٹ پیکج ضرور دیا جائے تاکہ پنشنرز کی باقیات ادا کی جا سکیں۔