اسلام آباد —
قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے اُمور داخلہ و منشیات نے حکومت کی طرف سے اراکین کی تجویز کردہ ترامیم پر عمل درآمد کی یقین دہانی پر انسداد دہشت گردی آرڈینس کو پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
پارلیمان کی عمارت میں پیر کو ہونے والے اجلاس میں ایک بار پھر صدارتی حکم نامہ جائزے کے لیے پیش کیا گیا اور اراکین کے اعتراضات پر بحث بھی کی گئی۔
سرکاری حکام اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے چیرمین رانا شمیم احمد خان کا کہنا تھا کہ اراکین کی تجاویز کو اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔
کمیٹی کے رکن اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پپیلز پارٹی کے قانون ساز نواب یوسف تالپور نے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک کی سلامتی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر سخت قوانین متعارف کرانا ناگزیر ہے۔
’’ہم نے کہا کہ اگر 90 دن حراست میں رکھنا ہے تو کوئی انٹرنل ریویو بورڈ بنایا جائے جو کہ ہر ماہ اسے دیکھے۔ پھر ویڈیو شواہد کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے بھی شوہد ہونے چاہیں۔ عدالتی نظام درست نہیں ہو سکتا کیونکہ لوگ گواہی کے لیے نہیں آتے تو اس قانون کے ذریعے ان کی سیکورٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔‘‘
اس آرڈینس کے تحت اگر کوئی شخص اپنی جان کو لاحق خطرے کے باعث عدالت میں گواہی کے لیے پیش نہیں ہو سکتا تو ویڈیو لنک کے ذریعے بھی اس کے بیان کو ریکارڈ کیا جا سکے گا۔
وزارت داخلہ کے عہدیدار کمیٹی کو متنبہ کر چکے ہیں کہ انسداد دہشت گردی سے متعلق صدارتی حکم ناموں کو اگر آئندہ ماہ تک پارلیمان سے منظور نا کرایا گیا تو عالمی سطح پر پاکستان کو اُن کے بقول سنگین مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کمیٹی اراکین کی اکثریت نے انسداد دہشت گردی آرڈینس کی اس بنیاد پر مخالفت کی تھی کہ اس میں انسانی حقوق کے منافی شقیں شامل ہیں جس پر حکومت کو آرٹینس کی منظوری کو موخر کرنا پڑا۔
پارلیمان میں حزب اختلاف کی تیسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اراکین نے پیر کو بھی کمیٹی کے اجلاس میں اس صدارتی حکم کے حق میں ووٹ نا دیا۔
جماعت کے رکن کمیٹی عارف علوی کا کہنا تھا کہ ان کے تحفظات ہیں کہ حکومت ان کی تجاویز پر کو آرڈیننس میں شامل نہیں کرے گی۔
’’انھوں نے کہا ہے کہ ہم نے آپ کی تجاویز مان لی تو اس کا مطلب کہ پارلیمان میں بل تبدیلیوں کے ساتھ آئے گا یا ہمیں پیش کرتے کہ یہ تبدیلیاں کی ہیں۔ مگر یہ تو کہتے ہیں کہ ہم کریں گے، تو کرنے اور کریں گے میں بہت فرق ہے۔‘‘
تاہم حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن کمیٹی سید افتخارالحسن نے آرڈینس سے متعلق ساتھی قانون سازوں کےاعتراضات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے بارے میں تحفظات کی بنیاد اُن کے بقول محض اراکین کا وہم ہے۔
’’اب دیکھے نا اس دن کراچی میں ہمارے بہادر پولیس افسر کو سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں شہید کردیا گیا..... یہاں لوگ ضمانتوں پر رہا ہو کر پھر مار کٹائی شروع کردیتے ہیں۔ اس آرڈینس کو تو آنکھیں بند کرکے پاس کرنا چاہیے تھا۔‘‘
انسداد دہشت گردی آرڈینس کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد باقاعدہ قانون بننے کے امکانات بہت واضح ہیں کیونکہ مسلم لیگ نواز اور اس کی اتحادی جماعتوں کو پارلمان کے ایوان زیریں میں واضح اکثریت حاصل ہے۔
کمیٹی نے تحفظ پاکستان نامی آرڈینس کی منظوری نہیں دی جس کے تحت اراکین کے مطابق دہشت گردی سے متعلق خصوصی عدالتوں کا قیام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اختیارات میں مزید اضافہ ممکن ہو گا۔ کئی اراکین کا کہنا تھا کہ یہ صدارتی حکم نامہ حساس نوعیت کا ہے اس لیے قانون سازی سے قبل اس پر مزید غور کرنا ضرورت ہے۔
پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک سیکورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ سخت قوانین اور عدالتی نظام میں اصلاحات کے بغیر خونریز عسکریت پسندی سے نہیں نمٹا جا سکتا۔
پارلیمان کی عمارت میں پیر کو ہونے والے اجلاس میں ایک بار پھر صدارتی حکم نامہ جائزے کے لیے پیش کیا گیا اور اراکین کے اعتراضات پر بحث بھی کی گئی۔
سرکاری حکام اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے چیرمین رانا شمیم احمد خان کا کہنا تھا کہ اراکین کی تجاویز کو اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔
کمیٹی کے رکن اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پپیلز پارٹی کے قانون ساز نواب یوسف تالپور نے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک کی سلامتی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر سخت قوانین متعارف کرانا ناگزیر ہے۔
’’ہم نے کہا کہ اگر 90 دن حراست میں رکھنا ہے تو کوئی انٹرنل ریویو بورڈ بنایا جائے جو کہ ہر ماہ اسے دیکھے۔ پھر ویڈیو شواہد کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے بھی شوہد ہونے چاہیں۔ عدالتی نظام درست نہیں ہو سکتا کیونکہ لوگ گواہی کے لیے نہیں آتے تو اس قانون کے ذریعے ان کی سیکورٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔‘‘
اس آرڈینس کے تحت اگر کوئی شخص اپنی جان کو لاحق خطرے کے باعث عدالت میں گواہی کے لیے پیش نہیں ہو سکتا تو ویڈیو لنک کے ذریعے بھی اس کے بیان کو ریکارڈ کیا جا سکے گا۔
وزارت داخلہ کے عہدیدار کمیٹی کو متنبہ کر چکے ہیں کہ انسداد دہشت گردی سے متعلق صدارتی حکم ناموں کو اگر آئندہ ماہ تک پارلیمان سے منظور نا کرایا گیا تو عالمی سطح پر پاکستان کو اُن کے بقول سنگین مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کمیٹی اراکین کی اکثریت نے انسداد دہشت گردی آرڈینس کی اس بنیاد پر مخالفت کی تھی کہ اس میں انسانی حقوق کے منافی شقیں شامل ہیں جس پر حکومت کو آرٹینس کی منظوری کو موخر کرنا پڑا۔
پارلیمان میں حزب اختلاف کی تیسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اراکین نے پیر کو بھی کمیٹی کے اجلاس میں اس صدارتی حکم کے حق میں ووٹ نا دیا۔
جماعت کے رکن کمیٹی عارف علوی کا کہنا تھا کہ ان کے تحفظات ہیں کہ حکومت ان کی تجاویز پر کو آرڈیننس میں شامل نہیں کرے گی۔
’’انھوں نے کہا ہے کہ ہم نے آپ کی تجاویز مان لی تو اس کا مطلب کہ پارلیمان میں بل تبدیلیوں کے ساتھ آئے گا یا ہمیں پیش کرتے کہ یہ تبدیلیاں کی ہیں۔ مگر یہ تو کہتے ہیں کہ ہم کریں گے، تو کرنے اور کریں گے میں بہت فرق ہے۔‘‘
تاہم حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن کمیٹی سید افتخارالحسن نے آرڈینس سے متعلق ساتھی قانون سازوں کےاعتراضات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے بارے میں تحفظات کی بنیاد اُن کے بقول محض اراکین کا وہم ہے۔
’’اب دیکھے نا اس دن کراچی میں ہمارے بہادر پولیس افسر کو سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں شہید کردیا گیا..... یہاں لوگ ضمانتوں پر رہا ہو کر پھر مار کٹائی شروع کردیتے ہیں۔ اس آرڈینس کو تو آنکھیں بند کرکے پاس کرنا چاہیے تھا۔‘‘
انسداد دہشت گردی آرڈینس کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد باقاعدہ قانون بننے کے امکانات بہت واضح ہیں کیونکہ مسلم لیگ نواز اور اس کی اتحادی جماعتوں کو پارلمان کے ایوان زیریں میں واضح اکثریت حاصل ہے۔
کمیٹی نے تحفظ پاکستان نامی آرڈینس کی منظوری نہیں دی جس کے تحت اراکین کے مطابق دہشت گردی سے متعلق خصوصی عدالتوں کا قیام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اختیارات میں مزید اضافہ ممکن ہو گا۔ کئی اراکین کا کہنا تھا کہ یہ صدارتی حکم نامہ حساس نوعیت کا ہے اس لیے قانون سازی سے قبل اس پر مزید غور کرنا ضرورت ہے۔
پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک سیکورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ سخت قوانین اور عدالتی نظام میں اصلاحات کے بغیر خونریز عسکریت پسندی سے نہیں نمٹا جا سکتا۔