گذشتہ دنوں جب مجھے ’پاکستان: ہماری نظر سے‘ نامی ایک فنکشن میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا تو بہت حیرت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ پاکستان میں فاٹا سے چودہ نوجوان اور باصلاحیت فوٹوگرافرز اپنے فن کے ساتھ پاکستان سے واشنگٹن آئے ہیں۔ جہاں انہوں نے نیشنل جیوگرافک کے ہیڈ کوارٹرز میں ایک ’فوٹو کیمپ‘ میں شرکت کی۔
ان ہنر مند فوٹوگرافروں کو پاکستان سے امریکہ لانے میں نیشنل جیوگرافک کو ’انٹر نیوز‘ اور ’یو ایس ایڈ‘ کا تعاون بھی حاصل رہا۔ یوں فاٹا کے دور دراز علاقوں سے سترہ نوجوانوں کو پاکستان سے امریکہ آنے اور یہاں اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا موقع ملا۔ ان میں سے نوجوانوں کی اکثرت فاٹا کے ایسے علاقوں سے تعلق رکھتی ہے جہاں انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں۔ ان میں سے بہت سے نوجوان کبھی اپنے گھروں سے باہر تک نہیں نکلے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے گھروں میں دو وقت کی روٹی ایک بڑا مسئلہ ہے۔۔۔ لیکن ان نوجوانوں نے ثابت کیا کہ عزم، ہمت اور حوصلے سے بڑی سے بڑی مشکل کو ٹالا جا سکتا ہے اور اپنے خوابوں میں رنگ بھرا جا سکتا ہے۔
سترہ نوجوانوں کے اس گروپ نے واشنگٹن آنے سے قبل پاکستان میں بھی ایک ’فوٹو کیمپ‘ میں شرکت کی تھی۔
یہ فوٹو کیمپ نیشنل جیوگرافک، انٹر نیوز اور یو ایس ایڈ نے منعقد کیا تھا۔ گذشتہ برس ستمبر میں اِن سترہ نوجوانوں کو 250 درخواستوں میں سے چُنا گیا تھا۔ کیمپ میں نوجوانوں کو فوٹوگرافی کی مدد سے کہانی بیان کرنا سکھایا گیا۔ نیشنل جیوگرافک کے ماہرین نے اسلام آباد میں ان نوجوانوں کو فوٹوگرافی کی بنیادی تکنیک سکھائی، انہیں فوٹوگرافی کے بنیادی اصول بتائے اور انہیں مختلف جگہوں پر لے جا کر فوٹوگرافی کی تربیت دی۔ ان نوجوانوں کو اس چھ روزہ تربیتی کیمپ میں فوٹوگرافی کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔۔۔ یوں، اس کیمپ کے ختم ہونے اور اپنے اپنے گھروں میں واپسی کے بعد بھی انہوں نے اپنے اس مشغلے کو اپنی زندگیوں میں جاری رکھا۔ اور تصاویر کے ذریعے اپنے گھروں، ماحول اور علاقے کی منظر کشی جاری رکھی۔
’یو ایس آئی پی‘ واشنگٹن ڈی سی کا ایک تھنک ٹینک ہے جہاں پر فاٹا سے آئے ان نوجوانوں کی تصاویر کی نمائش کی گئی۔ نمائش کا مقصد ان نوجوانوں کا کام دنیا کے سامنے لانا تھا۔ اس نمائش میں نہ صرف واشنگٹن میں رہنے والے مقامی پاکستانیوں بلکہ امریکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقعے پر فاٹا سے تعلق رکھنے والے یہ سبھی نوجوان اپنے ملک کے قومی لباس میں ملبوس دکھائی دئیے۔
’کیا خیبر پختونخواہ میں ایک خاتون کا فوٹوگرافی کرنا آسان ہے؟‘ ۔۔۔ میرا سوال تھا مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ ہُما گل سے جن کی تصویروں میں سکول اور علاقے کے بچے نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔ ہُما بولیں، ’میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ یہ بہت آسان ہے، مگر ہمت تو کرنا پڑتی ہے۔۔۔۔ میں نے خیبر پختونخواہ کے مشکل علاقوں میں فوٹوگرافی کی ہے۔ میں اپنی فیلڈ میں کام کرنے کے لیے بہت سنجیدہ ہوں اور چاہتی ہوں کہ میرا کام مختلف رسالوں میں چھپے۔ میرے لیے ہر روز کام کے حوالے سے ایک نیا تجربہ ہے۔‘
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل جیوگرافک کے ٹائرون ٹرنر کا کہنا تھا کہ، ’پاکستان جانا ایک بہت اچھا تجربہ تھا۔ مجھے وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ پاکستان کے نوجوان کتنے باصلاحیت ہیں۔ اِن کا کام آپ کے سامنے ہے۔‘
پاکستان سے آئے یہ نوجوان پُر عزم دکھائی دئیے کہ وطن واپس جا کر فوٹوگرافی جاری رکھیں گے۔
ان ہنر مند فوٹوگرافروں کو پاکستان سے امریکہ لانے میں نیشنل جیوگرافک کو ’انٹر نیوز‘ اور ’یو ایس ایڈ‘ کا تعاون بھی حاصل رہا۔ یوں فاٹا کے دور دراز علاقوں سے سترہ نوجوانوں کو پاکستان سے امریکہ آنے اور یہاں اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا موقع ملا۔ ان میں سے نوجوانوں کی اکثرت فاٹا کے ایسے علاقوں سے تعلق رکھتی ہے جہاں انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں۔ ان میں سے بہت سے نوجوان کبھی اپنے گھروں سے باہر تک نہیں نکلے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے گھروں میں دو وقت کی روٹی ایک بڑا مسئلہ ہے۔۔۔ لیکن ان نوجوانوں نے ثابت کیا کہ عزم، ہمت اور حوصلے سے بڑی سے بڑی مشکل کو ٹالا جا سکتا ہے اور اپنے خوابوں میں رنگ بھرا جا سکتا ہے۔
سترہ نوجوانوں کے اس گروپ نے واشنگٹن آنے سے قبل پاکستان میں بھی ایک ’فوٹو کیمپ‘ میں شرکت کی تھی۔
یہ فوٹو کیمپ نیشنل جیوگرافک، انٹر نیوز اور یو ایس ایڈ نے منعقد کیا تھا۔ گذشتہ برس ستمبر میں اِن سترہ نوجوانوں کو 250 درخواستوں میں سے چُنا گیا تھا۔ کیمپ میں نوجوانوں کو فوٹوگرافی کی مدد سے کہانی بیان کرنا سکھایا گیا۔ نیشنل جیوگرافک کے ماہرین نے اسلام آباد میں ان نوجوانوں کو فوٹوگرافی کی بنیادی تکنیک سکھائی، انہیں فوٹوگرافی کے بنیادی اصول بتائے اور انہیں مختلف جگہوں پر لے جا کر فوٹوگرافی کی تربیت دی۔ ان نوجوانوں کو اس چھ روزہ تربیتی کیمپ میں فوٹوگرافی کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔۔۔ یوں، اس کیمپ کے ختم ہونے اور اپنے اپنے گھروں میں واپسی کے بعد بھی انہوں نے اپنے اس مشغلے کو اپنی زندگیوں میں جاری رکھا۔ اور تصاویر کے ذریعے اپنے گھروں، ماحول اور علاقے کی منظر کشی جاری رکھی۔
’یو ایس آئی پی‘ واشنگٹن ڈی سی کا ایک تھنک ٹینک ہے جہاں پر فاٹا سے آئے ان نوجوانوں کی تصاویر کی نمائش کی گئی۔ نمائش کا مقصد ان نوجوانوں کا کام دنیا کے سامنے لانا تھا۔ اس نمائش میں نہ صرف واشنگٹن میں رہنے والے مقامی پاکستانیوں بلکہ امریکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقعے پر فاٹا سے تعلق رکھنے والے یہ سبھی نوجوان اپنے ملک کے قومی لباس میں ملبوس دکھائی دئیے۔
’کیا خیبر پختونخواہ میں ایک خاتون کا فوٹوگرافی کرنا آسان ہے؟‘ ۔۔۔ میرا سوال تھا مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ ہُما گل سے جن کی تصویروں میں سکول اور علاقے کے بچے نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔ ہُما بولیں، ’میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ یہ بہت آسان ہے، مگر ہمت تو کرنا پڑتی ہے۔۔۔۔ میں نے خیبر پختونخواہ کے مشکل علاقوں میں فوٹوگرافی کی ہے۔ میں اپنی فیلڈ میں کام کرنے کے لیے بہت سنجیدہ ہوں اور چاہتی ہوں کہ میرا کام مختلف رسالوں میں چھپے۔ میرے لیے ہر روز کام کے حوالے سے ایک نیا تجربہ ہے۔‘
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل جیوگرافک کے ٹائرون ٹرنر کا کہنا تھا کہ، ’پاکستان جانا ایک بہت اچھا تجربہ تھا۔ مجھے وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ پاکستان کے نوجوان کتنے باصلاحیت ہیں۔ اِن کا کام آپ کے سامنے ہے۔‘
پاکستان سے آئے یہ نوجوان پُر عزم دکھائی دئیے کہ وطن واپس جا کر فوٹوگرافی جاری رکھیں گے۔