پاکستان میں خواجہ سراؤں سے متعلق آئے روز منظر عام پر آنے والی خبریں ان کی حالت زار اور ان سے متعلق سماجی رویے کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی زندگی ایک ناختم ہونے والی جدوجہد سے عبارت ہے جو یہ بحیثیت انسان مساوی حقوق کے لیے کرتی نظر آتے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ انھیں مذہبی طور پر بھی امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے اور انھیں نماز کی ادائیگی کے لیے اگر مسجد جانا ہو تو سماجی رویے اس راہ میں بھی رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔
لیکن خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں نے اسلام آباد میں ایک مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا جس میں ان کے بقول کوئی بھی بلا جھجھک داخل ہو کر اپنے مذہبی فرائض ادا کر سکے گا۔
ایسے ہی ایک کارکن ندیم کشش نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ خواجہ سرا بھی دیگر مسلمانوں کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں اور اسی کے پیش نظر انھیں یہ مسجد بنانے کا خیال آیا اور اس کا نام انھوں نے رحمت العالمین مسجد رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسجد کی تعمیر کے لیے وسائل جمع کرنے میں انھیں دشواری کا سامنا تو بہر حال کرنا پڑ رہا ہے لیکن تمام خواجہ سرا اپنے اپنے طور پر اس میں حصہ ڈال رہے ہیں۔
"ہم نے چندہ نہیں مانگا، ہمارے خواجہ سرا جو بھیک مانگنے جاتی ہیں وہ (حصہ ڈالتی ہیں) اور جو اچھے پیسے کما لیتی ہیں وہ ہمارے ساتھ تعاون کرتی ہیں۔ سات لاکھ روپے تک کا کام ہو چکا ہے۔"
مسجد میں امامت کے بارے میں ندیم کشش کا کہنا تھا کہ کئی خواجہ سراؤں نے دینی تعلیم حاصل کر کے اپنی شخصیت کو تبدیل کیا ہے اور یہی لوگ یہاں درس بھی دیں گے جس سے نہ صرف خواجہ سرا بلکہ دیگر لوگ بھی استفادہ کر سکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح اگر معاشرے کے دیگر لوگ خواجہ سراؤں کے ساتھ مل بیٹھیں گے تو سماجی رویوں کو تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔
"ایک دوسرے کو ساتھ دیکھتے دیکھتے رویے میں تبدیلی آجائے گی جو رویہ لوگوں نے اپنا رکھا ہے کہ یہ (خواجہ سرا) صرف ناچ گانے کے لیے ہیں یا سکیس ورکر ہیں یا بھیک مانگنے کے لیے ہیں یا پھر انھیں کھسرا کھسرا کہہ کے تیسری دنیا میں داخل کر دیتے ہیں۔"
خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ ماضی کی نسبت ان سے متعلق رویوں میں عمومی تبدیلی تو دیکھنے میں آئی ہے لیکن معاشرے میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے میں انھیں ابھی بہت وقت لگے گا لیکن وہ اس بارے میں اپنے عزم پر قائم ہیں۔