پاکستان اور ترکی نے پاک فضائیہ کے زیر استعمال ایف 16 لڑاکا طیاروں کو جدید بنانے کے لیے ایک معاہدہ پر اتفاق کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس معاہدے کے تحت پاکستان کے پاس پرانے ایف 16 لڑاکا طیاروں کو جدید بنانے پر سات کروڑ پچاس لاکھ ڈالر لاگت آئے گی۔
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی نے ترکی کی ایشیا بحر الکاہل کونسل کے ایک اعلیٰ عہدیدار ولکن یوزر کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان کے کچھ پرانے ایف 16 طیارے پہلے ہی ترکی میں پہنچ چکے ہیں۔
تاہم استنبول میں نامہ نگاروں سے گفتگو میں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان طیاروں کو جدید بنانے میں کتنا وقت درکار ہو گا۔
پاکستان اور ترکی کے درمیان یہ معاہدہ ایک ایسے وقت طے پایا ہے جب امریکہ سے آٹھ ایف 16 طیاروں کی خریداری کا معاملہ بظاہر کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ امریکہ نے 70 کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کے ان طیاروں کی خریداری کے لیے 40 کروڑ ڈالر سے زائد کا زر اعانت فراہم کرنا تھا لیکن کانگرس کی طرف سے اعتراض کے بعد اب اگر پاکستان کو یہ طیارے خریدنے ہیں تو اسے تمام رقم خود ہی ادا کرنا ہو گی۔
دو روز قبل ہی پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سنیٹ کو یہ بتایا تھا حالیہ مہینوں میں پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کا عمل متاثر ہوا ہے اور ان کے بقول ایف سولہ طیاروں کے لیے امریکی کانگرس کی طرف سے فنڈز روکے جانا اس تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔
تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور خطے میں مشترکہ مفادات کے لیے وہ اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے اپنے عزم پر قائم ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ ایف 16 طیارے ملک کے شمالی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والی فضائی کارروائیوں کے لیے ضروری ہیں اور پاکستان اپنی فضائیہ کی صلاحیت کو بہتر کرنے کے لیے متبادل ذرائع کی تلاش میں ہے اور ترکی کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ بھی بظاہر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار اور سابق ائیر مارشل مسعود اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے پاس چین کا جے 10 ، جے 20 اور روس کے ایس یو 35 طیارے بھی ایف 16 طیاروں کا متبادل ہو سکتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ "ان کو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کرنے کے لیے ضروری تبدیلیاں درکار ہوں گی۔ امریکہ نے جو ہمیں بلاک 52، آٹھ ایف 16 طیارے دینے ہیں یہی طیارے اس وقت پاکستان کے زیر استعمال ہیں اور امریکہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس وقت جو (دہشت گردی کے خلاف) جنگ ہم لڑرہے ہیں وہ ان کے لیے اور خطے کے لیے لڑ رہے ہیں"۔
پاکستان ماضی میں اپنی دفاعی ضروریات کے لیے امریکہ سمیت دیگر مغربی ملکوں پر انحصار کرتا رہا ہے تاہم حالیہ برسوں میں اس نے چین کے علاوہ روس سے بھی دفاعی شعبے میں تعاون کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔