ترکی میں ناکام بغاوت کا الزام ایک جلاوطن مذہبی شخصیت فتح اللہ گولن پر عائد کرتے ہوئے ترکی نے جہاں اپنے ہاں گولن تحریک کے حامیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں وہیں اس نے دیگر ممالک میں اس تحریک سے وابستہ اداروں اور افراد کے خلاف وہاں کی حکومتوں سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان میں 20 سال قبل پاک ترک انٹرنیشنل اسکولز کے نام سے تعلیمی ادارے بننا شروع ہوئے تھے جسے گولن تحریک سے وابستہ بتایا جاتا ہے۔ گو کہ اس نیٹ ورک کی پاکستان میں انتظامیہ تردید کرتی ہے کہ اس کا کسی سیاسی یا مذہبی تحریک سے کوئی تعلق ہے، لیکن اس ہفتے اسلام آباد میں ترکی کے سفیر کی طرف سے ان اسکولوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بابت بیان سامنے آیا ہے۔
تاحال سرکاری طور پر پاکستان نے اس مطالبے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن حکام کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ حکومت ترکی کے تحفظات پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ذاتی تعلقات بھی ہیں اور مبصرین کے مطابق ایسی صورتحال میں پاکستانی وزیراعظم کے لیے ملکی پالیسی کے تناظر میں انقرہ کے مطالبات پر کوئی بھی فیصلہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔
تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے میں کہ جب یہ تعلیمی ادارے قانونی طریقے سے قائم ہوئے تو ترک حکومت کے مطالبے کو پوری طرح ماننا پاکستان کے لیے خاصا مشکل ہو گا۔
"ریاستوں کے تعلقات میں جب آپ ذاتیات میں پہنچ جائیں تو پھر ریاستی پالیسی کو چلانا مشکل ہو جاتا ہے اور اب وزیراعظم (نواز شریف) کے لیے یہ اچھا خاصا چیلنج کھڑا ہو گیا ہے۔"
پاک ترک انٹرنیشنل اسکولز اینڈ کالجز کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں دو درجن سے زائد تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں جہاں لگ بھگ دس ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔
اس نیٹ ورک سے وابستہ عہدیداروں کے یہ بیانات سامنے آئے ہیں کہ ان میں کام کرنے والے ترک شہری قانونی طریقے سے غیر سرکاری تنظیموں کے لیے جاری کردہ ویزوں کے تحت پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔
پروفیسر رضوی کہتے ہیں کہ اسکولوں کو مکمل طور پر بند کرنا حکومت کے لیے پیچیدہ معاملہ ہوگا اور اس ضمن میں اسے ثالثی کے اقدامات کرنے پڑیں گے۔
"اچھے خاصے پاکستانی بچے ان اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں ان کو اگر بند کرتے ہیں تو ان بچوں کو آپ کہاں منتقل کریں گے یا ان اسکولوں کا انتظام حکومت خود سنبھالے، یہ وہ پالیسی کا فیصلہ ہے جو وزیراعطم کی سطح پر ہو گا اور وزیراعظم کے تعلقات چونکہ بہت اچھے ہیں ترکی کی قیادت سے تو اس بات کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا پڑے گا۔۔۔یہ (اسکول) قانونی طریقے سے بنے ہیں تو حکومت کو ثالثی کے اقدام کرنے پڑیں گے۔"
امریکہ میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے عمر رسیدہ فتح اللہ گولن بھی ترک قیادت کی طرف سے خود پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کر چکے ہیں۔