رسائی کے لنکس

پاکستان میں ٹوئٹر پر پابندی لگنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے


پی ٹی اے کے انٹرنیٹ پالیسی اور ویب کے لیے ڈائریکٹر جنرل نثار احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ پچھلے ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے تحت ٹوئٹر انتظامیہ کو فائنل نوٹس دیا گیا ہے کہ وہ یا تو حکومت کے ساتھ تعاون کرے یا پھر ملک میں اپنی بندش کے لیے تیار رہے۔

مختصر پیغامات بھیجنے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کو پاکستان میں بندش کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا ہے کیونکہ پاکستان کی حکومت ایسے پیغامات کی ترسیل روکنے کے لیے، جنہیں وہ ملک کے آئینی اور معاشرتی روایات سے متصادم سمجھتی ہے، ٹیوٹر انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔

بدھ کے روز پاکستان کی ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پی ٹی اے نے سینیٹ کی ایک اسٹینڈنگ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ فیس بک، یوٹیوب اور کئی دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ، قابل اعتراض مواد روکنے میں حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں جب کہ ٹوئٹر ایسا نہیں کر رہا۔

پی ٹی اے کے انٹرنیٹ پالیسی اور ویب کے لیے ڈائریکٹر جنرل نثار احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ پچھلے ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے تحت ٹوئٹر انتظامیہ کو فائنل نوٹس دیا گیا ہے کہ وہ یا تو حکومت کے ساتھ تعاون کرے یا پھر ملک میں اپنی بندش کے لیے تیار رہے۔

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ٹوئٹر پاکستان میں فیس بک کی طرح مقبول نہیں ہے۔ اس لیے اگر ٹوئیٹر کو بند کر دیا جاتا ہے کہ تو اس کے اثرات بہت محدود ہوں گے لیکن دوسری جانب ٹوئٹر پاکستان میں اپنے کاروبار سے محروم ہو جائے گا۔

وائس آف امریکہ اردو سروس کی نفیسہ ہود بھائی نے ٹوئیٹر کی ممکنہ بندش کے حوالے سے پاکستان میں صورت حال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں سے گفتگو کی۔

ایک نجی ٹی وی چینل کے صحافی اور تجزیہ کار عدنان عادل کا کہنا تھا کہ بعض معاملات حساس نوعیت کے ہوتے ہیں، جیسے توہین مذہب اور ملکی سلامتی وغیرہ۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ ان أمور کی حساسیت کی پروا کیے بغیر قابل اعتراض اور قابل گرفت چیزیں کہہ جاتے ہیں جس سے ریاست دباؤ میں آ جاتی ہے۔

ایک اور صحافی عادل جواد کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے کسی بھی ویب سائٹ کا بند کرنا کچھ مشکل نہیں ہے لیکن شاید ٹوئٹر پر پابندی نہ لگے کیونکہ نئی حکومت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس استعمال کرنے کی قائل ہے اور وہ یہ کہہ چکی ہے کہ وہ میڈیا کو آزاد رکھنا چاہتی ہے۔

مزید تفصیلات جاننے کے لیے ذیل کے لنک پر کلک کریں۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:03:24 0:00

XS
SM
MD
LG