ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی بڑی جامعات کے طلبہ میں انتہا پسند رجحانات کے کچھ عملی نمونے سامنے آنے پر تشویش کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام و نصاب پر توجہ دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں، ملک کے ایوان بالا 'سینیٹ' نے ایک ایسی قرارداد منظور کی ہے جس میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کو نصاب تعلیم میں شامل کرنے کا کہا گیا ہے۔
قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ شہریوں کو ان کے جمہوری حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض کی تعلیم اور مہذب معاشرے میں جمہوریت کی اہمیت اسکول سے ہی دینا شروع کی جائے۔
یہ قرارداد پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر سحر کامران نے پیش کی تھی جسے پیر کو ایوان نے منظور کیا تھا۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینیٹر سحر کامران کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ نوجوان نسل جس نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے اسے اپنی ذمہ داریوں، بنیادی حقوق اور پاکستان کے خدوخال واضح کرنے والے آئین کے بارے میں آگاہی ہو۔
"اس کے بہت دور رس نتائج ہوں گے۔ آئین پڑھایا جائے۔ شہری حقوق و فرائض کی تعلیم ہو۔ جمہوریت کو پڑھایا جائے۔۔ آج کل جو لگتا ہے کہ لوگ اپنے بنیادی حقوق کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کو آگاہی نہیں ہے اور اسی وجہ سے بار بار جمہوری عمل کو دھچکا لگتا ہے۔ اسی لیے ہم صحیح سمت میں سفر نہیں کر سکے۔"
قرارداد کی ایوان سے منظوری ایک اچھی پیش رفت تو ہے لیکن ان مندرجات کو عملی طور پر نافذ کرنا ایک مشکل اور وقت طلب معاملہ ہے جس سے یہ قرارداد پیش کرنے والی سینیٹر بھی اتفاق کرتی ہیں۔
سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ وہ قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم کی بھی رکن ہیں لہذا وہ پوری کوشش کریں گی کہ اس عمل کو تیز کرنے کے لیے اقدام کیے جائیں، کیونکہ ان کے بقول کل کا پاکستان اگر مضبوط بنانا ہے تو یہ کرنا ہوگا۔ آنے والی نسل کو شعور دینا ہوگا اور ایسا نہیں ہوتا تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہوگی۔
"تعلیمی اداروں میں جو شدت پسندی کی طرف رغبت نظر آ رہی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے ان کو جو بنیادی ذمہ داریاں ہیں، بنیادی حقوق ہیں، آئین کے مطابق جو بنیادی ضابطہ اخلاق ہے وہ سکھایا ہی نہیں۔ وہ ذمہ داریاں اور حقوق سب بتانا ہوگا اور اسکول سے سکھانا ہوگا تاکہ ہم اچھے مضبوط ذہن کے ساتھ اپنے آنے والی نسل کو پروان چڑھائیں جو ذمہ داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں۔"