رسائی کے لنکس

ڈرون حملوں پر پاکستان کا اظہار ناراضگی


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں پاکستان کو اس پر حیرت ہوئی ہے کہ واشنگٹن پاکستانی علاقے پر ڈرونز کے حملوں کے ذریعے جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔

پاکستان میں لیڈروں نے امریکہ کے ان مبینہ منصوبوں پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر القاعدہ سے منسلک دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر ڈرونز کے متنازع حملے جاری رہیں گے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ حملے ہمیشہ جاری رہنے والی جنگ کے مترادف ہیں اور صدر براک اوباما نے پیر کے روز اپنی حلف برداری کی تقریر میں جو کچھ کہا ہے، ان منصوبوں سے اس کی نفی ہوتی ہے۔

افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ پاکستانی علاقوں میں امریکہ کے بغیر پائلٹ والے ڈرونز جہازوں کے حملے انتہائی متنازع ہیں اور پاکستان میں ان کے خلاف جذبات بہت شدید ہیں۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ نے گذشتہ ہفتے اطلاع دی کہ امریکی عہدے داروں نے انسدادِ دہشت گردی کا ایک مینوئل مکمل کر لیا ہے جس میں نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کی کارروائیوں کے بارے میں واضح ضابطے مقرر کیے گئے ہیں جن پر صدر اوباما کی صدارت کی دوسری مدت میں عمل کیا جائے گا۔

تاہم اخبار نے بعض عہدے داروں کے حوالے سے، جن کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، کہا کہ اس سے پہلے کہ سی آئی اے سے یہ کہا جائے کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کے نئے ضابطوں پر عمل شروع کرے، اسے اس بات کی اجازت دی جائے گی کہ وہ کم از کم مزید ایک سال کے لیے پاکستان میں مشتبہ القاعدہ اور طالبان کو بغیر پائلٹ والے جہازوں کے ذریعے میزائلوں سے نشانہ بنا سکتی ہے۔

پاکستان کی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے منگل کے روز پاکستانی سینیٹ میں کہا تھا کہ ان کا ملک امریکہ کے ڈرون حملوں کو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی سمجھتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، ان حملوں سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو رہا ہے۔

سینیٹ کی ڈیفینس کمیٹی کے چیئر مین مشاہد حسین نے کہا ہے کہ ڈرونز کے حملے جاری رہنے سے، دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔ امریکہ افغانستان میں امن کے فروغ کے لیے پاکستان کے تعاون کا خواہاں ہے، تاکہ اگلے سال کے آخر تک وہاں سے امریکہ اور نیٹو کی فوجیں واپس چلی جائیں۔ لیکن سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں پاکستان کو اس پر حیرت ہوئی ہے کہ واشنگٹن پاکستانی علاقے پر ڈرونز کے حملوں کے ذریعے جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔

‘‘صدر براک حسین اوباما نے اپنے عہدے کی افتتاحی تقریر میں کہا ہے کہ امریکہ اب کسی نہ ختم ہونے والی جنگ میں نہیں الجھ سکتا۔ اور یہ اقدام اس عہد کے خلاف ہے۔ پاکستان کے لیے وہ جو کچھ کہہ رہےہیں وہ ڈرونز کی نہ ختم ہونے والی جنگ کے مترادف ہو گا۔ اس سے فائدے کے بجائے نقصان ہو گا پاکستان کے اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی ہو گی اور پاکستان کے لوگوں میں امریکہ مخالف جذبات کو فروغ ملے گا۔’’

پاکستان نے کھلے عام ڈرون مہم کی مذمت کی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ امریکہ اسے ختم کر دے۔ اس نے کہا ہے کہ اس سے نہ صرف ملک کے اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

تاہم امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ڈرونز کے حملے دہشت گردی کے خلاف موئثر ہتھیار ہیں اور ان کی بدولت القاعدہ کا نیٹ ورک درہم برہم ہو گیا ہے۔

لیکن پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ نئے زمینی حقائق کی روشنی میں امریکہ ڈرونز کے بارے میں ان کے ملک کے موقف کو سننے پر تیار ہو جائے۔

‘‘امریکہ کو افغانستان سے اپنی فوج کو کسی دشواری کے بغیر نکالنے کے لیے پاکستان کی حکومت، پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستان کی سکیورٹی سروسز پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے، تو میں کہوں گا کہ پاکستان اپنے نقطۂ نظر پر زور دینے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔’’

امریکہ نے پاکستان میں وفاق کے زیرِانتظام علاقے یعنی فاٹا میں ڈرونز کے سینکڑوں حملے کیے ہیں۔ خیال ہے کہ یہاں القاعدہ اور افغان عسکریت پسندوں نے خفیہ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں جہاں سے وہ سرحد پار افغانستان میں حملے کرتے رہتے ہیں۔

ڈرونز کے حملوں سے جو نقصان ہوا ہے اس کے بارے میں مصدقہ تفصیلات دینا مشکل ہے کیوں کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں رپورٹروں کا سفر کرنا خطرناک ہے۔
XS
SM
MD
LG