افغانستان اور جنوبی ایشیا کیلئے صدر ٹرمپ نے 21 اگست کو جس پالیسی کا اعلان کیا تھا، بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بھارت کو ایک ایسا نادر موقع فراہم کرتی ہے جس کے تحت وہ اپنے حریف ہمسایہ ملک پاکستان کے خلاف زیادہ سخت رویہ اپنا سکتا ہے۔
اس حوالے سے لندن میں قائم بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز یعنی IISS نے بدھ کے روز ایک خاص سیمنار کا اہتمام کیا جس میں امریکہ اور برطانیہ کے ماہرین شریک ہوئے۔ سیمنار میں ان ماہرین نے نئی امریکی حکمت عملی کے خدوخال پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے علاوہ پاکستان میں اس کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات دور کرنے کی بھی کوشش کی۔
سیمنار میں امریکہ کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے راجر کینساس، جان ووڈ اور جیک گِل شریک ہوئے جبکہ برطانیہ سے IISS کے راہول روئے چوہدری اور اینٹوئنے لیویسکس بھی اس کا حصہ تھے۔ ووڈ کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی نئی حکمت عملی کی توجیح بعض حلقوں میں ضرورت سے زیادہ کی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے بھارت سے افغانستان کو فوجی مدد فراہم کرنے کیلئے نہیں کہا بلکہ بھارت سے اقتصادی اور ترقیاتی شعبوں میں مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان میں ہونے والی تنقید کا ذکر کرتے ہوئے ووڈ نے کہا کہ صدرٹرمپ کی پالیسی میں متعدد ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا پاکستان عرصے سے مطالبہ کرتا آیا ہے۔ ان میں افغانستان میں امریکہ کی طویل عرصے تک موجودگی، سیاسی تصفیے کی ضرورت اور افغانستان میں طالبان پر دباؤ بڑھانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
IISS کے روئے چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ نئی پالیسی بھارت کو ایک نادر موقع فراہم کرتی ہے جس کا اظہار اس پالیسی کے اعلان کے بعد سے بھارت، امریکہ اور افغانستان کے سفارتکاروں کے درمیان بڑھتے ہوئے سفارتی رابطوں سے ہوتا ہے۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول بھی اس ہفتے افغانستان پہنچے ہیں جہاں اُنہوں نے اپنے ہم منصب کے علاوہ افغان صدر اشرف غنی سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔
روئے چوہدری کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کبھی کسی امریکی صدر نے پاکستان کے بارے میں اس قدر سخت مؤقف نہیں اپنایا اور یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی صدر نے کھل کر بھارت کو دعوت دی ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کرے۔ یوں امریکہ نے افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کو قانونی جواز فراہم کر دیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی امریکہ کی اس نئی حکمت عملی سے بھارت میں دو حوالوں سے تشویش پائی جاتی ہے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں جنوبی ایشیا کی دو علاقائی جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ کشیدگی بڑھ کر باقاعدہ محاذ آرائی کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں روایتی ہتھیاروں میں واضح برتری حاصل ہونے سے کشیدگی بڑھنے کی صورت میں پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کی پالیسی کو جواز مل جاتا ہے اور کشمیر کے تنازعے کو بین الاقوامی سطح پر اُٹھا سکتا ہے۔ دوسرے بھارت کو صدر ٹرمپ کی پالیسی کے حوالے سے مبینہ طور پر تجارتی اثرات سے متعلق خطرات کے بارے میں بھی تشویش ہے۔ اگر بھارت افغانستان کو معاشی اور تجارتی مدد فراہم کرنے کے بارے میں امریکی توقعات پر پورا نہیں اترتا تو بھارت پر امریکی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
امریکہ کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے جیک گل کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کے بارے میں سخت رویے کا اظہار دراصل پاکستان سے امریکہ کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے جو کوئی نئی صورت حال نہیں ہے۔ تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں موجود صورت حال کیلئے پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا بیان پاکستان کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ اس خواہش کا اظہار ہے کہ پاکستان اپنے اقدامات کے ذریعے خود اپنے لئے اور دیگر ہمسایہ ممالک کیلئے کوئی خطرے کا باعث نہ بنے۔ اُنہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی اس پالیسی سے افغانستان کے بارے میں حکمت عملی کو علاقائی وسعت حاصل ہو گئی ہے اور اس حوالے سے پاکستان اور بھارت دونوں کا کردار اہم ہو گا۔ تاہم جیک ووڈ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ صدر ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے چین کے کردار کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے۔
تاہم امریکہ کے ممتاز پالیسی ساز ادارے یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے ایسوسی ایٹ وائس پریذیڈنٹ ڈاکٹر معید یوسف نے وائس آف امریکہ کی اُردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہے کہ آیا بھارت وہ کردار ادا کرنے کیلئے تیار بھی ہو گا یا نہیں جو امریکہ اُس سے چاہتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی بڑی حد تک آزاد رہی ہے۔ علاوہ اذیں بھارت پاکستان کو افغانستان اور خطے کے دوسرے ممالک سے الگ تھلگ کرنے کی جس پالیسی پر کام کر رہا ہے، امریکہ اُس کی مکمل طور پر حمایت نہیں کر پائے گا۔ معید یوسف کا کہنا ہے کہ اگر بھارت امریکہ کی توقعات کے مطابق کردار ادا نہ کر پایا تو بھارت اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے مسائل بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔