امریکی حکومت پورٹ قاسم کے بعد کراچی پورٹ پر بھی اسکینرزلگانے کی خواہشمند ہے تا کہ بندرگاہوں کے ذریعے امریکہ کو کسی بھی دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ رکھا جاسکے ۔ یہ بات امریکی قونصل جنرل اسٹیون فیکن نے کراچی میں تاجروں کو اسکینرز کی افادیت سے آگاہ کرنے کے لیے منعقدہ ایک تقریب میں کہی۔
واضح رہے کہ امریکی اور پاکستانی حکومت کے ایک مشترکہ پروگرام ایس ایف آئی یعنی سیکیور فریٹ انیشییٹو کے تحت سال 2007 میں کراچی میں پورٹ قاسم پر جوہری مواد کی جانچ پرتال کے لیے اسکینرز نصب کیے گئے ہیں جہاں اب تک پورٹ قاسم پر 1 لاکھ 11 ہزار کینٹینرز کوئی رقم ادا کیے بغیر جوہری مواد کی جانچ کرنے والی ٹیکنالوجی سے اسکین ہو کر گزرتے رہے ہیں۔
امریکی قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستانی برآمدکنندگان کی اکثریت مصنوعات کی برآمد کے لیے کراچی بندرگاہ کو ترجیح دیتی ہے جہاں کنٹینرز کی تعداد پورٹ قاسم سے دگنی ہے۔ امریکی حکومت ایس ایف آئی پرواگرام کو کراچی پورٹ تک پھیلانے کی خواہشمند ہے تاکہ کراچی پورٹ سے بھیجے جانے والے 17000 کنٹینرز کی بھی جانچ کی جائے۔ان میں سے زیادہ تر کنٹینرز کو جانچ پڑتال کے لیے ایک عبوری پورٹ پر رکنا پڑتا ہے جس سے ان کو منزل تک پہنچنے میں وقت اور قیمت دونوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
کراچی پورٹ سے براہ ِراست امریکہ بھیجے جانے والے 27 سو کنٹینرز میں دس فیصد کنٹینرز پر دو لاکھ ڈالرز کی رقم پاکستانی برآمد کنندگان کو ادا کرنا پڑی۔ ایسے میں اسٹیون فیکن کے مطابق اس پروگرام کے ذریعے نہ صرف کراچی پورٹ سے امریکہ کو برآمد کی جانے والی پاکستانی مصنوعات پر کم لاگت آئے گی اور پاکستانی تجارت کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی فراہم بھی ہوگی ساتھ میں بیک وقت یہ پروگرام امریکہ کے سکیورٹی سے متعلق خدشات کو بھی ختم کرتاہے کہ دہشت گرد کنٹینرز کے ذریعے جوہری مواد امریکہ پہنچاسکتے ہیں۔
لیکن کراچی پورٹ پر اسکینرز کی تنصیب کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ خود حکومت پاکستان کی جانب سے ہے ۔اس موقع پر تقریب میں موجود امریکی سفارتخانے کے ڈپٹی اکنامک آفیسر رابی مارک نے بتایا کہ ایس ایف آئی کے پورٹ قاسم سے کراچی بندرگاہ تک پھیلاؤ کے طریقہ کار پر امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے درمیان 2006 ء میں مرتب کیے گئے قوائد پر اتفاق کیا گیا تھاتاہم حکومتِ پاکستان تاحال کراچی پورٹ پران اسکینرز کی تنصیب کے لیے زمین فراہم نہیں کرسکی ہے اس لیے دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے پر مذاکرات گذشتہ دو سال سے تعطل کا شکار ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی قونصلیٹ کی جانب سے فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل اور پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل اسکینرز لگانے کے خواہشمند ہیں اور اس مقصد کے لیے اپنی زمین بھی وقف کرچکے ہیں ۔ امریکی حکومت اسکیننگ اور ایکسرے مشینیں ٹرمینل پر نصب کرنے کے لیے تیار ہے تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے گرین سگنل کی منتظر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایس ایف آئی کے بغیرپاکستانی کنٹینرز کو امریکی بندرگاہوں میں داخلے کے لیے فی کنٹینر آٹھ سو ڈالر دینا پڑتے ہیں جبکہ اسکریننگ کی وجہ سے مصنوعات کی حوالگی میں اوسطاً دو سے تین ہفتے کی تاخیر ہوجاتی ہے۔ جبکہ ایس ایف آئی کی موجودگی میں پاکستانی برآمدکنندگان کو اسکیننگ کی مد میں رقم بھی ادا نہیں کرنا ہوگی اور نہ ہی کنٹینرز کو امریکہ میں داخلے کی پہلے سے اجازت ہوگی۔
واضح رہے کہ 2008 ء میں پاکستان نے 3.59 بلین ڈالر کی مصنوعات امریکہ برآمد کیں جو پاکستانی کی کل برآمدات کا ایک چوتھائی سے زیادہ ہے ۔اس میں 84 فیصد ٹیکسٹائل مصنوعات تھیں۔وہ کہتے ہیں کہ سکیور فریٹ پروگرام سے امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن اور پاکستانی کسٹمز مشترکہ طور پر ایک لاکھ کنٹینرز ہر سال اسکین کرسکیں گے جس سے نہ صرف پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارت دگنی ہوگی بلکہ اس خطے کی تجارت میں پاکستان کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔