رسائی کے لنکس

پاک امریکہ سفارتی کشیدگی دور کرنے کی کوششیں


نمائندہ خصوصی گراسمین، افغانستان اور پاکستان میں تعینات امریکی سفیروں کے ہمراہ
نمائندہ خصوصی گراسمین، افغانستان اور پاکستان میں تعینات امریکی سفیروں کے ہمراہ

امریکہ کے خصوصی مندوب مارک گراسمین نے پاکستانی لیڈروں کے ساتھ افغانستان میں مصالحت کی کوششوں کے بارے میں مزید بات چیت کی ہے۔ یہ مذاکرا ت ایسے وقت ہو ئے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ دو اتحادی ملک، سفارتی سطح پر کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2 مئی کو پاکستان میں امریکی کمانڈو حملے میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے ہلاکت کے بعد، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور زیادہ کشیدہ ہو گئے ہیں۔

رواں ہفتے امریکہ کے خصوصی مندوب مارک گراسمین نے اسلام آباد میں اعلیٰ افغان، امریکی اور پاکستانی عہدے داروں کے درمیان مذاکرات کے تازہ ترین راؤنڈ میں شرکت کی ۔ ان مذاکرات کا مقصد افغانستان میں تشدد کے خاتمے کی کوششوں کو مربوط کرنا ہے ۔

امریکی مندوب نے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے بارے میں بھی تفصیلی بات چیت کی ہے ۔ بدھ کے روز وہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملے۔ ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات میں بیشتر توجہ افغانستان میں قیامِ امن پر دی گئی لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ کیا پاکستان میں امریکی سفارتکاروں کے سفر پر پابندیوں کا سوال بھی زیرِ بحث آیا یا نہیں۔

تا ہم، پاکستانی عہدے داروں نے کہا ہے کہ باقاعدہ مذاکرات میں تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا ہے، اور دونوں فریقوں نے اس معاملے کو دوستانہ انداز میں طے کرنے پر اتفاق کیا ہے تا کہ دہشت گردی کے خلاف ان کی مشترکہ مہم کو نقصان نہ پہنچے۔

منگل کی رات اسلام آباد میں گراسمین نے تسلیم کیا کہ حالیہ مہینوں کے دوران دو طرفہ تعلقات میں مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہاکہ پاکستان میں امریکی سفارت کاروں کے سفر پر پابندیوں کے مسئلے کو طے کرنے کے لیے ، پاکستا ن اور امریکہ مل جل کر کام کر رہے ہیں۔’’

امریکی سفارتکار پاکستان میں سفر کے لیے آزاد ہیں۔ حکومت ِ پاکستان کے کچھ ضابطے ہیں، اور کچھ شرائط ہیں، اور ہم مِل جُل کر یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ شرائط کیسے پوری کی جائیں۔ مجھے پکا یقین ہے کہ ہم اس معاملے کو اس طرح طے کر لیں گے کہ حکومتِ پاکستان کی شرائط پوری ہو جائیں ، اور امریکی سفارتکار پاکستان میں آزادی سے سفر کر سکیں۔‘‘

مسٹر گراسمین کی وزیراعظم گیلانی سے ملاقات
مسٹر گراسمین کی وزیراعظم گیلانی سے ملاقات

امریکی عہدے داروں کی دلیل یہ ہے کہ وی آنا کنونشن کے تحت امریکی سفارتکاروں کو پاکستان میں نقل و حرکت کی آزادی حاصل ہے، خاص طور سے جب وہ ایسے شہروں کا سفر کریں جہاں امریکی قونصل خانے قائم ہیں۔ اس ہفتے کے شروع میں، پاکستان کی وزیرِ خارجہ، حنا ربانی کھر نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ ان کے ملک نے امریکی سفارتکاروں پر سفر کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ انھوں نے کہا’’پاکستان میں کہیں بھی سفارتکاروں کے سفر کرنے پر کوئی ایسی پابندیاں نہیں ہیں جو کسی ایک ملک کے لیے مخصوص ہوں۔ جو عام قواعد و ضوابط ہیں وہ پاکستان میں کام کرنے والے ہر سفارتکار پر عائد ہوتے ہیں۔ میں یہ وضاحت کرنا چاہتی ہوں کہ کوئی ایسا ضابطہ نہیں ہے جس کا اطلاق پاکستان میں کہیں بھی کسی مخصوص ملک پر ہوتا ہو۔‘‘

پاکستانی عہدے دار کہتےہیں کہ غیر ملکی سفارتکاروں پر پابندیاں نئی نہیں ہیں، اور ان کا مقصد ملک میں سفر کے دوران سفارتکاروں کی ذاتی حفاظت کو یقینی بنانا ہے، کیوں کہ ملک میں طالبان اور القاعدہ سے وابستہ عسکریت پسند اکثر خود کش بمباری اور دہشت گردی کے حملے کرتے رہتے ہیں۔

پیر کے روز گراسمین کے ساتھ میٹنگ میں صدر آصف علی زرداری نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ مستقبل میں دو طرفہ تعلقات میں مسائل سے بچنے کے لیے ، بقول ان کے، تعلقات کی واضح شرائط پر متفق ہو جائے ۔

ملیحہ لودھی امریکہ میں پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’میں سمجھتی ہوں کہ دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ تعلقات میں مکمل بگاڑ کی نوبت نہیں آنی چاہیئے اور اس سے ہر حالت میں بچنا چاہیئے۔آخر دونوں ملکوں کے مشترکہ مفادات ہیں جن کی وجہ سے یہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ مشترکہ اہداف کس طرح حاصل کیے جائیں، اس بارے میں طریقۂ کار کا اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن دو بنیادی مقاصد یہی ہیں کہ القاعدہ کو شکست دی جائے، اور سیاسی سمجھوتے کے ذریعے، جس میں پاکستان کو اہم کردار ادا کرنا ہے، افغانستان میں جنگ ختم کی جائے۔‘‘

ملیحہ لودھی
ملیحہ لودھی

پاکستان کے سویلین اور فوجی عہدے داروں نے حالیہ ہفتوں کے دوران بار بار کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلق کا از سرِ نو تعین کرنا ، اور اسے نئے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں تا کہ پاکستان کے قومی مفادات کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے ۔ ان کا اصرار ہے کہ کئی متنازع امور میں ، جن کی وجہ سے واشنگٹن اور اسلام آباد میں کشیدگی پیدا ہو رہی ہے، سمجھوتہ ضروری ہے ۔ ان امور میں پاکستان میں تعینات سی آئ اے کے عملے کی تعداد، اور پاکستان کی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے خفیہ ٹھکانوں پر امریکہ کے بغیر پائلٹ والے جہازوں یعنی ڈرونز سے میزائلوں کے حملوں کا استعمال شامل ہیں۔ پاکستانی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ڈرونز کے حملوں سے پاکستان میں امریکہ کے خلاف جذبات مشتعل ہوتے ہیں۔

سابق سفیر ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ موجودہ حالات میں، اسلام آباد اور واشنگٹن کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کریں۔ صرف اسی طرح وہ امن کو مضبوط بنا سکتے ہیں اور افغانستان میں مصالحت کی مشترکہ کوششوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔’’میں سمجھتی ہوں کہ دونوں ملکوں کو اپنے تعلقات کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے کوئی مشترکہ بنیاد تلاش کرنا ہوگی، کیوں کہ تعلقات میں خاصی خرابی پیدا ہو چکی ہے، اور دونوں دارالحکومتوں کے درمیان ، اعتماد بہت کم ہو گیا ہے۔‘‘

امریکہ کے اس حملے پر جس میں بن لادن کو ہلاک کیا گیا، ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آبا د نے امریکہ کے ان فوجیوں کی تعداد کم کردی جو پاکستانی فوج کی تربیت کے لیے پاکستان میں موجود تھے، اور ملک میں سی آئی اے کے عہدے داروں پر پابندیاں سخت کر دیں۔ امریکی سفارتکاروں کی نقل و حرکت پر پابندیاں بھی اسی پالیسی کا شاخسانہ معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن واشنگٹن کو اس بات پر ناراضگی تھی کہ القاعدہ کا سربراہ، کئی برسوں سے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں موجود تھا۔ ایبٹ آباد کی کارروائی سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے نتیجے میں، امریکہ نے پاکستان کو ملنے والی 2.7 ارب ڈالر کی سالانہ فوجی امداد میں سے تقریباً ایک تہائی امداد بھی معطل کر دی۔

XS
SM
MD
LG