پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں حالیہ چند ہفتوں کے دوران وقفے وقفے سے سیاسی اور لسانی بنیادوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے بعض انتظامی اقدامات بھی کیے گئے ہیں، لیکن اس کے با وجود شہر میں ہر تھوڑے دن بعد ہونے والے فسادات کے سلسلے پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
کراچی کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینئر رہنما رضا ہارون نے ایک پریس کانفرنس میں الزام لگایا تھا کہ شہر میں تشدد کی اس نئی لہر میں حکمران پیپلز پارٹی کے بعض وزراء ملوث ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کے رہنما ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔
ساحلی شہر میں امن کے قیام اور سیاسی جماعتوں کے درمیان بدگمانیوں کو دور کرنے کے لئے صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر ہفتہ کو پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں پر مشتمل چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جو صوبے میں تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے میں رہے گی۔
دوسری جانب شہر میں حالیہ پر تشدد واقعات میں دو درجن سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد حالات اتوار کو تیسرے روز بھی کشیدہ رہے۔ ملیر اور لانڈھی سمیت شہر کے کئی علاقوں میں فائرنگ کے کئی واقعات بھی پیش آئے جس سے ان علاقوں میں خو ف و ہراس برقرار ہے اور دکانیں بند ہیں۔
تشدد کی حالیہ لہر کا آغاز ملیر اور لانڈھی کے علاقوں میں ایم کیو ایم اور اس کے مخالف دھڑے مہاجر قومی موومنٹ کے درمیان تصادم سے ہوا۔ ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں میں دونوں جماعتوں کے سیاسی کارکن بھی شامل ہیں۔ جب کہ اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز میں کشیدگی کی وجہ ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے درمیان سیاسی اختلافات بتائے گئے تھے۔ لیکن بعد میں ان واقعات میں حکمراں پیپلز پارٹی کے ملوث ہونے کے الزامات بھی سامنے آئے۔
ادھر پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی) نے کراچی میں پر تشدد واقعات کے اسباب کی تحقیقات کے لئے ایک ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جو اس ماہ کے آخر میں کراچی میں مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں سے ملاقاتیں کرے گی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ کراچی میں تشدد کی جو صورت حال سامنے آرہی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے اور حکومت کو اس سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔