رسائی کے لنکس

کراچی میں قتل و غارت کی لہر اور اس کے اسباب


کراچی میں سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں گزشتہ سال تقریباً 1,800 افراد ہلاک ہوئے تھے مگر امن و امان کی صورت حال کی بہتری کے لیے موثر اقدامات کے سرکاری دعوؤں کے برعکس قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ وقفے وقفے سے اس سال بھی جاری ہے۔

ملک کی اقتصادی سرگرمیوں کے اس مرکز میں پہلے ساڑھے چار ماہ میں لگ بھگ 400 لوگوں کو موت کی نیند سلایا جا چکا ہے جن میں عام شہری، پولیس اہلکار، سیاسی کارکن، وکلاء اور شعبہ تعلیم و وکالت سے وابستہ افراد شامل ہیں۔

عمومی تاثر یہی ہے کہ کراچی کی با اثر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے منشیات فروش گروہ، قبضہ گروپ اور بھتہ خور مافیا ہدف بنا کر لوگوں کو ہلاک کرنے کے ان واقعات میں ملوث ہیں۔ ان کارروائیوں کے باعث ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد آبادی والے اس پاکستانی شہر کے اکثر حصوں میں حکومت کی عمل داری غیر موثر ہو کر رہ گئی ہے۔

حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سندھ اسمبلی کے رکن شرجیل میمن نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہتر کرنے کے سلسلے میں سیاسی مصلحتیں حکومت کے آڑے آ رہی ہیں۔

’’اس (تشدد کی لہر) میں مختلف عوامل ہیں، اس میں جہادی تنظیمیں بھی ہیں، اس میں وہ جرائم پیشہ عناصر بھی ہیں جنھیں کچھ سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی حاصل ہے، کچھ عناصر شہر کو غیر مستحکم کرنے کے لیے غیر ملکی طاقتوں کی مدد سے بھی لڑ رہے ہیں ... لیکن حکومت سنجیدہ ہے کہ مجرمان کو گرفتار کر کے جرائم کا خاتمہ کیا جائے۔‘‘

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری

انتظامیہ کی مبینہ نااہلی کا نوٹس سپریم کورٹ بھی لے چکی ہے اور اس نے شہر کے حالات کی بہتری کے لیے بعض اقدامات بھی تجویز کر رکھے ہیں، لیکن سابق جج اور سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل طارق محمود کہتے ہیں کہ حالات کو بہتر کرنے کی اولین ذمہ داری سیاسی انتظامیہ کی ہے۔

’’پچھلے دنوں (وفاقی وزیرِ داخلہ) رحمٰن ملک نے یہ بیان دیا تھا کہ کراچی میں بھتہ خوری میں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی بھی ملوث ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جو حکومت کر رہے ہیں۔ اگر یہ مسئلہ ہو گا تو پھر تو معاملات نہیں چلیں گے۔‘‘

کراچی میں تشدد کے ہر واقعہ کے بعد انتقامی کارروائیوں کے لیے مسلح افراد کا متاثرہ علاقے میں سڑکوں پر نکل آنا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے جن کے خوف سے کاروباری سرگرمیاں اور زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ امن و امان کی صورت حال کی بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں مگر وہ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اتنے بڑے شہر کے لیے ان کے پاس پولیس کی نفری ناکافی ہے۔

غیر جانبدار ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی میں بھی محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت نے حالات کو مزید سنگین کر دیا ہے۔

’’بالکل پولیس میں سیاسی عنصر بڑھا ہے، اس کے علاوہ نا اُن کی موزوں تربیت کی جاتی ہے، اور جب وہ (متاثرہ) علاقوں میں جاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ملزمان کے پاس زیادہ جدید اور بھاری مقدار میں ہتھیار ہیں، جس سے پولیس اہلکاروں کا بھی جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے۔‘‘

کراچی میں تشدد اور سیاسی کشیدگی کی ذمہ داری زیادہ تر متحدہ قومی موومنٹ اورعوامی نیشنل پارٹی پر عائد کی جاتی ہے۔

لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ حالیہ مہینوں میں پیپلز پارٹی سے منسلک مسلح دھڑے بھی متحرک ہو گئے ہیں اور یوں شہر ان سیاسی جماعتوں کے اثرو رسوخ والےعلاقوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا ہے جب کہ باقی پر مذہبی جماعتوں کا راج ہے۔

کراچی کے حالات کو درست کرنے کے لیے حکومت نے جو بھی اقدامات کیے ہیں ان پر اُسے ہر طرف سے تنقید کا سامنا رہا ہے اور ان میں لیاری کےعلاقے میں حالیہ پولیس آپریشن بھی ایک بڑا سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔

زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاست ’’کریمنلائز‘‘ ہو رہی ہے۔

لیاری میں پولیس آپریشن اچانک بند کر دیا گیا
لیاری میں پولیس آپریشن اچانک بند کر دیا گیا

’’لیاری اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ لیاری آپریشن کا کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آ رہا ہے، وزیرِ داخلہ نے اس کو شروع کروایا اور اُنھوں نے ہی اسے اچانک ختم کروا دیا، مگر اس کا در حقیقت نتیجہ یہ ہے کہ جن جرائم پیشہ عناصر کی خود اُنھوں نے نشاندہی کی تھی اُن کو تو پکڑا نہیں گیا بلکہ عام شہریوں کو اس سے زیادہ تکلیف ہوئی۔‘‘

خود پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی اہم اتحادی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رضا ہارون کے لیے بھی متنازعہ لیاری آپریشن تاحال ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ اُن کے بقول آپریشن کو ادھورا چھوڑنے سے بظاہر یہ تاثر ملا ہے کہ ریاستی ادارے چند غنڈہ گرد عناصر کے مقابلے میں کمزور ہیں۔

’’اگر ہم یہ پیغام دیں گے تو آپ سوچیں تقویت کس کو ملے گی ... اگر کارروائی ادھوری چھوڑ دی جائے گی تو شہریوں کو تحفظ کا احساس کیسے ہوگا۔‘‘

رضا ہارون کراچی کے خراب حالات کو ان کی جماعت، اے این پی اور پیپلزپارٹی کے آپسی اختلافات کے تناظر میں دیکھنے سے اتفاق نہیں کرتے۔

’’جو (عناصر) حکمران اتحاد میں نہیں ہیں اُن کے لیے تو بڑا آسان ہے کہ شہر بھر میں ہنگامے کرتے پھریں اور ذمہ ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی پر ڈال دیا جائے۔‘‘

لیکن ایچ آر سی پی کی سربراہ زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ بالآخر بنیادی ذمہ داری ان سیاسی جماعتوں کی ہی ہے جو اقتدار کا حصہ ہیں۔

’’اس طرح سے تو کراچی کا نقصان ہو رہا ہے، اس کے شہریوں کا نقصان ہو رہا ہے اور آگے چل کر خود سیاسی جماعتوں کا نقصان بھی ہوگا کیوں کہ سمجھا جائے گا کہ وہ خود ایک طرح سے جرم میں ملوث ہیں اور وہ (حقیقتاً) ہیں بھی۔‘‘

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کے بعد گزشتہ 10 سالوں کے دوران پاکستان دنیا کو یہ باور کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ملک کی مغربی سرحد پر واقع قبائلی علاقوں بشمول شمالی وزیرستان میں ریاست کی عمل داری قائم کرنے کے لیے عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف موثر کارروائیاں کی جا رہی ہیں لیکن ناقدین کے بقول کراچی جیسے جدید شہر کا انتظام چلانے میں بے بسی کی موجودگی میں انتظامیہ کے دیگر دعوؤں پر عالمی برادری کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار ایک فطری عمل ہے۔

قومی معیشت کے لیے کراچی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آمدنی پر ٹیکس کی مد میں 70 فیصد اور سیلز ٹیکس کی مد میں 62 فیصد سے زائد محصولات حکومت کو اسی شہر سے حاصل ہوتے ہیں۔

کراچی میں تشدد کے ان واقعات کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں کیونکہ اکثر بین الاقوامی کمپنیوں نے اپنے صدر دفاتر کراچی میں قائم کر رکھے ہیں۔

پاکستان میں آئندہ عام انتخابات اگلے سال مارچ میں متوقع ہیں لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے حملوں میں شدت کے پیش نظر جہاں اس صوبے میں پولنگ کا انعقاد ایک بڑا چیلنج ہوگا وہیں کراچی کے موجودہ حالات کے پیش نظر اقتصادی اہمیت کے حامل اس شہر میں اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش میں سیاسی جماعتوں کے درمیان خونریز محاذ آرائی کے خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG