پشاور بم دھماکوں میں ایک صحافی کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں رواں سال ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد سات ہو گئی ہے۔
ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب پشاور میں دو بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں میں مقامی اخبار سے وابستہ صحافی نوید انور بھی شامل تھے۔
خیبر سپر مارکیٹ میں ہونے والے پہلے دھماکے کے بعد نوید انور بھی دیگر صحافیوں کی طرح اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے جب جائے وقوعہ پر پہنچے تو انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ عوام تک حقائق پہنچانے کی کوشش میں وہ خود دوسرے دھماکے کا شکار ہو جائیں گے۔
پشاور بم دھماکوں میں زخمی ہونے والے 100 سے زائد افراد میں تین دیگر صحافی بھی شامل ہیں جن کا علاج ہو رہا ہے۔ ان میں ایک نجی نیوز چینل کے پشاور میں بیورو چیف شفیع اللہ کی حالت انتہائی تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر پرویز شوکت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ملک میں دہشت گرد حملوں میں اضافے کے بعد صحافیوں کے لیے رپورٹنگ کرنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ’’پورے پاکستان میں صحافی سراپا احتجاج ہیں اور سلیم شہزاد کے قتل کے بعد ہم نے پورے پاکستان میں تحریک چلائی۔ ہم نے (تحقیقات کے لیے) سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، ابھی تک حکومت نے اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ۔‘‘
گزشتہ ماہ ایشیا ٹائمز آن لائن کے پاکستان میں بیور چیف سیلم شہزاد کو نامعلوم افراد نے وفاقی دارالحکومت سے اغواء کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش اسلام آباد سے تقریباً 150 کلومیٹر دور منڈی بہاالدین کے قریب ایک نہر سے ملی تھی۔
ملک بھر کی صحافتی تنظیمیں اور سول سوسائٹی نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ سلیم شہزاد کے قتل میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی ملوث ہے۔ تاہم آئی ایس آئی نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے ادارے کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔
پاکستان کی صحافتی تنظیمیں اور سول سوسائٹی نے سیلم شہزاد کے قتل کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر پرویز شوکت نے بتایا کہ اگر حکومت نے 15جون تک سیلم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل نہ دیا تو ملک بھر کے صحافی اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنا دیں گے۔
صحافیوں کے لیے کام کرنے والی بین الااقوامی تنظیموں کے مطابق پاکستان شعبہ صحافت سے منسلک افراد کے لیے خطرناک ترین ملک بنتا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو صحافی اپنی جان پر کھیل کرعوام کو حقائق سے آگاہ کرتے ہیں تو دوسری جانب سچ لکھنے کی پاداش میں صحافیوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنانے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔