پاکستان نے افغان قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوتی ہوئی صورتحال کا الزام اسلام آباد پر ڈالنے کی بجائے طالبان عسکریت پسندوں کی تعداد گھٹانے اور ان کے خاتمے کی اپنی پالیسی کا جائزہ لے۔
پاکستانی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے وائس آف امریکہ سے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ افغانستان میں سیاسی اتفاق رائے کا نہ ہونا اور اس بارے میں ابہام کی وجہ سے کہ آیا طالبان عسکریت پسند دہشت گرد ہیں، یا قومی سیاست میں ایک فریق ہیں، یین الاقوامی مدد سے افغان متحارب فریقوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات رک گئے۔
سرتاج عزیز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں ان کا طریقہ کار بہت ہی مخدوش ہے، ہم چاہتے ہیں کہ (افغانستان کی) اتحادی حکومت کامیاب ہو۔ وہ اپنی عمل داری بحال کر۔ے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ طالبان اور دیگر گروپوں کو یہ واضح پیغام دیں کہ ساری دنیا چاہتی ہے کہ طالبان کابل سے بات کریں اور مسئلے کو حل کریں کیونکہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ افغانستان میں لڑائی جاری رہے۔"
افغان نقطہ نظر کا واضح ہونا اور اس کے ساتھ پاکستان کا یہ عزم کہ وہ اپنی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے طالبان کو " واضح عندیہ" دیا جا سکتا ہے اور اس سے وہ مذاکرات کی میز پر آ سکتے ہیں۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ "میرے خیال میں ان پر بہت زیادہ دباؤ ہو گا اور اگر 2017ء میں سنجیدہ مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں تو یہ افغانستان میں امن کے لیے ہماری بہترین امید ہو گی۔"
انہوں نے کہا کہ افغان کے مسئلے کے حل کے لیے برسوں سے فوجی طاقت کے ذریعے افغان تنازع کو حل کرنے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے اور اس کی بجائے طالبان مضبوط ہو گئے۔"
سرتاج عزیز نے خبردار کیا کہ "طالبان افغانستان کے ایک بڑے حصے یا ( بڑے شہری) علاقے پر قبضہ کرنے کے شاید قابل نہ ہوں لیکن وہ شورش کو ایک طویل عرصے تک جاری رکھ سکتے ہیں۔ لیکن افغانستان کے عوام کو جتنی جلد ممکن ہو امن چاہیئے۔۔۔۔اس دوران بلاشبہ ایساف (بین الاقوامی) فورسز اس بات کو یقینی بنانے کے لیے افغانستان کی معاونت کر رہی ہیں کہ طالبان زیادہ علاقے کا کنٹرول حاصل نہ کر سکیں کیونکہ اگر وہ زیادہ علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے لگیں گے تو ظاہر ہے پھر وہ بات چیت سے احتراز کریں گے۔"
امریکی فوج کے ایک جائزے کے مطابق ملک کے دو تہائی علاقے پر حکومت کا کنٹرول ہے جب کہ 10 فیصد علاقہ باغیوں کے قبضے میں ہے اور باقی علاقوں میں لڑائی جاری ہے۔
طالبان کی طرف سے جنگی کارروائیوں اور گزشتہ ہفتے افغانستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے مہلک بم حملوں کے بعد دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان لفظی جنگ شروع ہو گئی۔
صدر اشرف غنی نے الزام عائد کیا کہ ’ان کے ملک میں حالیہ حملوں کے ’’منصوبہ ساز " پاکستان میں آزادانہ طور پر رہ رہے ہیں اور لوگوں کو بھرتی کر رہے ہیں۔‘
ان کی طرف سے یہ اس دیرینہ سرکاری موقف کا اعادہ ہے کہ سرحد پار طالبان کی میبنہ محفوظ پناہ گاہوں کی وجہ سے افغان جنگ طویل ہوتی گئی ہے۔
پاکستانی عہدیدار ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور ان الزامات کو افغانستان کے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش قرار دیتے ہیں۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان نے صدر غنی کو بار ہا یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ طالبان باغیوں کے لیے جگہ تنگ کر دی گئی ہے اور سرحد کی پاکستانی جانب چھپنے والے زیادہ تر عسکریت پسند افغانستان چلے گئے ہیں۔
سرتاج عز یز نے کہا کہ "ہم اس عزم پر قائم ہیں اور رفتہ رفتہ اس پر عمل کر رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب میں شمالی وزیرستان کو عسکریت پسندوں سے صاف کر دیا گیا ہے۔ تمام دہشت گرد گروپوں کےبنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس لیے وہ اتنی قوت اور کثرت سے کارروائیاں نہیں کر سکتے جیسا کہ پہلے کرتے تھے۔ تاہم ان کی باقیات اب بھی بکھری ہوئی ہیں اور ان کو صاف کرنے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔"
وہ افغان سرحد کے قریب واقع قبائلی علاقوں میں فوج کی قیادت میں جاری انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا حوالہ دے رہے تھے۔
پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے افغانستان کے ساتھ اپنی 2,600 کلومیٹر طویل سرحد پر سیکیورٹی کو بہتر کرنے کی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔ انہوں نے افغان حکام پر زور دیا کہ وہ بھی اپنے جانب اسی طرح کے اقدامات کریں۔
انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے سرحد کے آرپار آزادانہ آمدورفت کے برعکس اب آنے جانے والے مسافر کو اپنی شناختی دستاویزات دکھانا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ، "اس نئی پالیسی سے تمام طرح کے لوگوں کی آمدروفت پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور اس لیے دستاویزات کے ذریعے سفر کو دونوں جانب لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک افغانستان کی جانب سے اس پر عمل نہیں کیا جا رہا ۔۔۔۔یہی ایک بہترین راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ نا پسندیدہ عناصر افغانستان نہ جائیں اور یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے پاکستان کی سرزمین کو استعمال نہ کرنے کے ہمارے عزم کو پرکھا جا سکتا ہے۔"
ان الزامات کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بھی ایک طویل عرصے سے کشیدہ ہیں کہ طالبان باغی مبینہ طور پر پاکستان میں موجود محفوظ ٹھکانوں کو استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ کی فورسز افغان میں امن و سلامتی کی کوششوں کے سلسلے میں افغانستان میں موجود ہیں۔
تاہم مشیر خارجہ سرتاج عزیز، ڈونلڈ ٹرمپ کی آنے والی انتظامیہ کے ساتھ تعمیری اور مثبت تعلقات کے برقرار رکھنے کے حوالے سے گرم جوش نظر آئے اور ان کے بقول تاکہ اس سے افغانستان اور عمومی طور پر خطے میں امن و سلامتی کے مشترکہ حصول کے مشرکہ مقصد کو حاصل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکہ اور پاکستان دونوں اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ایک افغان قیادت پر مشتمل امن عمل مذاکرات ہی اس کے لیے پرامن حل کی طرف بڑھنے کا راستہ ہے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے پرخیالات میں اس ہم آہنگی کی وجہ سے ہم افغانستان کے بحران کے پرامن حال کی طرف پیش رفت کر سکتے ہیں۔"